Thursday 26 February 2015

شکرہے ۔۔تم قدرت کے آقا نہیں


شکرہے ۔۔تم قدرت کے آقا نہیں
حفیظ درویش
شکر ہے اور ہزار شکر ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی قدرت پر قدرت نہیں ہے۔ یہ سورج جو روز مشرق سے نکلتا ہے  اور اپنی حرارت اور روشنی لوگوں پر نچھاور کرتا ہے ۔اگر یہ ہمارے حکمرانوں کے زیر نگیں ہوتا تو اس کی روشنی غریب پاکستانی عوام کےلیے ایک خواب ہوجاتی۔ ہمارے حکمران   جب اور جس وقت چاہتے ا س کی روشنی اور حرارت لوگوں کو فراہم کرتے اور جب ان کا دل کرتا اس کی لوڈشیڈنگ شروع کردیتے۔ لوگ اپنے معصو م اور ٹھٹھرتے ہوئے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر ان کی منتیں کرتے کہ کچھ دیر کو گرمی عطا کردیں۔ کچھ لمحوں کےلیے اندھیروں سے ہماری جان چھڑا دیں۔ پر ہزار شکر کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ سور ج اپنی روٹین کےمطابق آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ویسے حکومت میں موجود وزراء اس کو دیکھ کر حسرت بھری آہ ضرور بھرتے ہوں گے اور  سوچتے ہوں گے کہ اگر یہ سورج ہمارے قبضے میں ہوتا تو ہم غریب عوام کی جیبوں سے مزید اربوں روپے اسی مد میں نکال لیتے ۔ ایسے میں ان وزراء لیے بس ایک ہی مشورہ ہے کہ
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا
اگر یہ ہواان لوگوں کی دسترس میں ہوتی تو سوچیے کہ لوگوں پر کیا عذاب ٹوٹ پڑتا۔ جگہ جگہ لوگ تڑپتے، سسکتے اور بلکتے ہوئے ملتے ۔ جن کے پاس پیسے نہ ہوتے وہ کسی گلی ، سڑک یا پھر چوراہے پر اپنا گلا پکڑے تڑپ رہے ہوتے جبکہ دیگر لوگ آس پاس سے گذرتے ہوئے ان پر ترحم کی نگاہ ڈالتے۔ موٹی گردنوں والے حکومتی اراکین  ٹی وی سکرینوں پر آکر  دھمکیاں دیتے کہ اگر لوگوں نے بروقت پیسے نہ دیے تویہ اسی طرح مرتے رہیں گے۔ حکومت ہڈ حرامی برداشت نہیں کرسکتی ۔ ان کے اس طرح بغیر کسی معاوضے کے آکسیجن استعمال کرنے سے حکومتی خزانے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
اگر یہ بادل اور بارش ان  کے ہاتھ میں ہوتی تو پھر تب تک کوئی سہانا موسم نہ دیکھ پاتا جب تک حکومتی اداروں کو بھاری بھرکم معاوضہ نہ اادا کردیتا۔جو معاوضہ ادا کردیتا اس کو ایک خاص ہا ل میں لے جاکر فلم کی طرح موسم اور بادل کے رنگ دکھا دیئے جاتے اور پھر وقت ختم ہونے پر اسے آلودہ ماحول میں دوبارہ دھکیل دیا جاتا ۔ شکر کا مقام ہے کہ ان بادلوں پر ان کی حکومت نہیں ۔ یہ ستارے ان کی دسترس میں نہیں ۔ بارش ان سے پوچھے بغیر برستی ہے۔ شکرہے کہ حکمران قدرت کے حاکم نہیں ۔ فیض نے  اپنی نظم "زندان کی شام" میں  کیا خوب چیلنج دیا ہے  ان جیسے حکمرانوں کو۔ اس نظم کےآخری چند مصرعے کچھ یوں ہیں۔
دل میں پیہم خیال آتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگرتو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم مانیں۔

No comments:

Post a Comment