Monday 25 November 2013

مولا تیرے رنگ انوکھے

مولا تیرے رنگ انوکھے

آفس سے چھٹی کا دن میں زیادہ تر گھر پر گزارتا ہوں۔لیکن آج اسلام آباد کے  ایف  ایٹ سیکٹر میں تھوڑا سا کام تھا۔ میں  ایف سیکس میں واقع اپنے فلیٹ  سے پیدل چل پڑا۔ دل میں دو مقاصد تھے۔ پہلا کہ کچھ پیسے بچ جائیں گے۔ دوسرا واک بھی ہوجائے گی۔ صبح کے کوئی دس بج رہے تھے۔اگرچہ اکتوبر شروع ہوگیا تھا لیکن گرمی کی شدت میں  کوئی کمی محسوس نہیں ہور ہی تھی۔فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے دو رویہ گھنے درختوں کے باوجود پسینہ آرہا تھا۔ میرے قریب سے دو لڑکے یکے بعد دیگرے گذرے جن کے ماتھوں پر بھی پسینہ چمک رہا تھا۔میں نے گرمی سے بچنے کےلیے اپنی  رفتار مزید دھیمی کردی۔

یونہی آہستہ آہستہ چلتے میں ایف  ایٹ پہنچ گیا۔گرمی اور پسینہ  بہنے کی وجہ سے حالت عجیب سی ہوگئی۔ اگرچہ میں نے صبح کا ناشتہ نہیں کیا تھا۔ لیکن پیاس کی شدت  کی وجہ سے ناشتے کے کھانوں کو دیکھنے کو بھی من نہیں کررہا تھا۔ ذہن میں ایک ہی خیا ل چکرا رہا تھا کہ کہیں سے یخ پانی پیا  جائے۔

ایک ریسٹورنٹ پر پہنچ کر  میں اس کے  اوپن ائیر میں بیٹھ گیا۔ ٹیبل  پر پڑےاسٹیل کے جگ کو  چھو کر دیکھا  تو اس میں موجود پانی کوئی خاص ٹھنڈا نہیں تھا۔ بیرے  کوآواز دے کر ٹھنڈے پانی کا کہااور ارگرد  دیکھنے   لگا۔ ریسٹورنٹ کے سامنے تقریباً ہر ٹیبل پر کوئی نہ کوئی بیٹھ کر کچھ نا کچھ کھا رہا تھا۔ کوئی دس کے قریب میزیں لگی ہوئی تھیں اور ان  کی سائیڈوں پر لگی کرسیوں پر کوئی بیس سے تیس کے قریب لوگ بیٹھے تھے۔ابھی میں نے جائزہ لینا  مکمل ہی کیا ہوگا کہ بیرا ٹھنڈے پانی کا بھرا جگ عجلت میں میرے سامنے دھر کر ساتھ والے ٹیبل پر کوئی  آرڈر لینے چلا گیا۔ میں نے گلاس میں پانی اس کے  کناروں تک بھرا اور غٹا غٹ پی گیا۔ ایک گلاس پانی  نے  اندرتک سکون کی ایک لہر دوڑا دی۔ لیکن پیاس پوری طرح نہیں بجھی۔ میں نے اس کے بعد ایک اور  گلاس پانی کا چڑھایا لیکن اس بار ذرا تمیز سے پانی پیا۔ٹھنڈے پانی نے جیسے اکسیر  کا کام کیا ہو۔ میری جان میں جان آئی اور جس کے بعد میں آس پاس کے ماحول کا مزید  باریکی بینی سے جائزہ لینےلگا۔

یہ ریسٹورنٹ ایک سڑک کے کنارے تھا۔ اس کے سامنے اور دائیں جانب سٹرک تھی۔دائیں جانب  جہاں سڑک مین روڈ سے مل رہی تھی وہاں دو لڑکیا ں خوش گپیوں میں مصروف اپنے آفس یا یونیورسٹی کی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔میں جس ٹیبل پر بیٹھا اس پر آکر دو افرادبیٹھ گئے۔ ایک میرے  ساتھ اورایک سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگیا۔

اس سیکٹر میں چونکہ  ڈسڑکٹ کورٹ ہے اس لیے یہاں  ہوٹلوں پر کھاناکھانے والے وکیل ، وثیقہ نویس اور ان کے  سائل  تھے  ۔میرے ساتھ آکر بیٹھنے والے بھی کسی کورٹ میں پیشی کےلیےآئے تھےاور دونوں ہی سائل تھے۔ان کا جائزہ لینے کے بعد جب میں نے  سامنے دیکھا تو ہوٹل کے کھانےوالے اسٹینڈ کے سامنے ایک بڑھیا کھڑی تھی۔ اس کے لباس سے اندازہ ہوگیا کہ وہ افغانی ہے۔ عمر کوئی ستر سال کے قریب تھی۔ کمزور سی ، قدرتی سفید  اور سرخ رنگت اور چہرے پر بہت ساری جھریاں جن میں ہر پاس سے گذرنے والے راہگیر کےلیےایک التجا ڈوبتی ابھرتی  رہتی ۔ اس خاتون کے ہاتھ میں ایک نان تھا۔ جس کو اس نےدوہرا تہرا کر ایک ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک نوالہ لے کر اس کو دیکھتی اور اس کے بعد  اس کو اپنے پوپلے سے منہ میں ڈال کر چبانے کی کوشش کرتی۔

یہ  بوڑھی عورت کاونٹر کی سامنے گئی اور وہاں کھڑے آدمی سے چھولے مانگے۔ جس کی آواز مجھ تک آئی۔ کاونٹر والے صاحب نے اس  بوڑھی خاتون کے  لفظ کو شعریت عطا کر کے جواب دیا۔اماں چھولےتو رولے  ہیں۔ اس کے بعد کہا کہ اماں معاف کرو۔بوڑھی عورت یہ سن کر وہاں سے ہٹ گئی اور آتے جاتے راہگیروں سے  بھیک مانگے لگی۔ اس کےبعد وہ بوڑھی عورت دوسری جانب چلی گئی۔ اس دوران وہ نوالہ توڑتی جاتی اور سوکھا ہی چباتی رہتی اور اگر اس دوران کوئی پاس سے گذرتا تو صرف ہاتھ ہی سامنے پھیلا دیتی۔ سامنے سےایک خوبصورت اور ماڈرن سا جوڑا آیا اماں نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا یا لیکن ان دونوں یوں اس کے پاس سے گذر گئے جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ اس کے بعد دو لڑکیاں بوڑھی خاتون کو نظر انداز کر کے گذر گئیں۔ میں نے اس دوران جلدی سے ایک  پلیٹ چنے اور دو روٹیوں کا آرڈر دیا۔
میں  اب  اس بات کا انتظار کر رہا تھا  کہ وہ بوڑھی عورت چلتے چلتے میرے قریب سے گذرے تاکہ میں اس کو اپنی طرف بلا  سکوں  اور  اس کو کہوں   کہ وہ اپنے نان میرے چنوں کے ساتھ کھائے۔ اس دوران ویٹر چنے کی پلیٹ اور روٹی لے آیا۔ جب وہ  واپس جانے  لگا تو میں  نے اس کو کہا کہ وہ بوڑھی  عورت کو   میرے طرف بھیج دے۔ اس نے  جا  کر اس ضعیف  خاتون کو کچھ  کہا اور پھر  میری طرف اشارہ کیا ۔ میں نے بھی  دور سے اس کی طرف دیکھ کر اپنے چنے کی پلیٹ کی طرف  اشارہ  کرتے ہوئے کہا کہ آئیں اور میرے ساتھ کھانا کھا لیں۔ یہ  بات  تو اس نے نہیں سنی لیکن میری ساتھ ٹیبل پر بیٹھے دونوں افراد کے کان میں پڑ گئی۔ اس عورت کو  کھانے  کی دعوت قدرے بلندآوازدینا ایک لاشعوری فعل  تھا۔ اس بوڑھی عورت نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر  چلتے ہوئے میری ٹیبل کی طرف آگئی۔ میں نے اپنے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف پڑی خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور اس کو بیٹھنے کا کہا۔

وہ خاتون چپ چاپ اس   کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس دوران میں نے چنے کی پلیٹ اس کی طرف تھوڑی سی کھسکا دی تاکہ وہ    اس میں سے آسانی سے کھا  سکے۔ بوڑھی اماں جی نے نان کاایک نوالہ سالن میں لگا کر منہ میں ڈالا۔جس پر اس اماں نے یوں منہ بنایا جیسے مرچوں کی وجہ سے بچے بناتے ہیں اور پھراپنی کلائی پر موجود قدرے مندمل  دو زخم دکھاکر فارسی میں بولنے  لگیں۔ جو اس نے کہا اس کا لب لباب یہ  تھا  کہ زخموں کےلیے مرچیں اچھی نہیں ہوتیں۔ میں نے پلیٹ اس کی طرف مزید کھسکائی اور مسکرا کر  کہا کہ  اماں جی ایسی کو  ئی بات نہیں ۔ مرچوں والا سالن کھانے سے آپ کو  کچھ  نہیں ہوگا۔ بوڑھی   عورت نے یہ سن کر اپنے ہاتھ میں پکڑے نان میں سے ایک نوالہ  توڑا اور اس کا سرا ہلکا سا شوربے  میں تر کرکے اپنے پوپلے منہ میں ڈال کرچبانے لگی۔

اس کی یہ بے رغبتی  دیکھ کر میں نے ویٹر کوچائے کا آرڈر دیا۔ چائے کا سن بوڑھی  خاتون نے نوالہ شوربے میں لگانے سے گریز کیااور چائے کا انتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر   بعد چائے آگئی اور اس  خاتون  نے گرما گرم چائے کہ ہلکے ہلکے سپ لیتے ہوئے اس کے ساتھ نان کھاناشروع کردیااور اس دوران مجھے دعائیں دینے لگی۔ کامیابی  کی، دوسرے جہاں میں مغفرت کی۔ماں باپ کی سلامتی کی اور دنیا میں اعلی مقام پانے کی۔  میں مسکراتے ہوئے اس کی یہ باتیں سنتا رہا اور ساتھ کے ساتھ اپنا ناشتہ کرتا رہا۔

بوڑھی خاتون کے زخموں کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میرے پاس زخموں کےلیے ٹیوب تھی  جو میں نے اس وقت خریدی تھی جب بند جوتے کی وجہ سے میرے پاوں کی انگلیوں میں زخم ہوگئےتھے۔ یہ ٹیوب لگانے کی وجہ سے میرے زخم دو تین دن میں مندمل ہوگئے۔ لیکن پھر  یاد آیا کہ وہ ٹیوب تو کچھ دن پہلے میں نے کوڑے میں پھینک دی تھی۔ کیونکہ اس کو کھلے ہوئے کوئی چھ ماہ گذر گئے تھے۔ وہ ٹیوب میں نے  شاید ساٹھ روپے کی لی تھی۔  میں نے  حساب  لگایا کہ میری جیب میں کتنے  پیسے ہیں۔ جمع تفریق کی توناشتے کے پیسے نکال لینے کے بعد کوئی تیس روپے بچتے تھے۔اپنی مجبوری کا اندازہ کرکے میں تھوڑا سا اداس ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے غور کیا اس خاتون کے ہاتھ میں گھاس سے بنی ہوئی پنکھی تھی جس سے وہ اپنے ہاتھ کے زخموں پر سے مکھیاں اڑا رہی تھی۔ اس نے آتے ہی یہ پنکھی ٹیبل پر رکھ دی۔ اس وقت تو مجھے لگا کہ بوڑھی عورت کوئی پاگل ہے جو یہ گھاس کی پنکھی بنا کر ساتھ لیے پھر رہی ہے۔لیکن بعد میں  اس کی دور اندیشی پر عش عش کراٹھا۔ اس کے بعد میں نے بوڑھی عورت کے لباس کا جائزہ لینے لگا۔

اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئےاور ان پیوندوں میں استعمال کیے گئے مختلف رنگوں کے دھاگے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے  کہ یہ مختلف اوقات میں لگائے گئے ہیں اور اس لباس کو مستقل بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے۔عید قرباں نزدیک تھی۔ میرا دل میں شدید خواہش ابھری کہ میں اس خاتون کو عید کےلیے کوئی سوٹ لے دوں یا اس کو اتنے پیسے دےدوں کے یہ اپنے لیے ایک سوٹ خرید لے۔ لیکن معاملہ پھر  وہی کہ جیب میں تیس  روپے جو  کہ اس کے جسم پر موجود زخموں کے پیوندوں کو بھرنے کےلیے ناکافی تھے۔میں اس دوران سوچتا رہا اور ناشتہ کرتارہا۔ پھر دل میں خیا ل آیا کہ مجھے اس خاتون سے کچھ بات کرنی چاہیے اگرچہ وہ فارسی میں بات کررہی تھی لیکن  میں اٹکل کے ذریعے اس کی با ت کو سمجھنے  کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ افغانستان کے کس علاقے سے ہیں۔ جس پر اس کہ جو لفظ میرے پلے پڑے وہ یہ تھے کہ وہ کابل کے ایک علاقے ولایت سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں تک جانے کا کرایہ چار  ہزار روپے ہے۔ میرے دل میں کئی سوالات مچلنے لگے اور فارسی نہ آنے  کی وجہ  سے  میں خود پر تلملانے لگا۔ پھر  بی اے میں پڑھی آپشنل فارسی کے چند لفظ یاد کرکے  جوڑنے کی کوشش کی لیکن بری  طرح  ناکام رہا۔

خیر شدید حسرت کے عالم میں  میں نے اپناناشتہ کیا۔ اس دوران وہ بوڑھی  عورتیں کرسی پر بیٹھی آرام سےاپنا   نان پہلے انگلیوں سے مسلتی پھرچائے کے ساتھ نگلتی رہی۔ میں نے ویٹر کو بلا کر  بل  ادا کیا۔ وہ تیس روپے واپس لے کرآیا تو اس میں سے مزید بیس روپے میں نے اس بوڑھی عورت کو یہ کہتے ہوئے دے دیئے کہ اماں جی اس سے شام کو چائے پی لینا۔ بیس  روپے لینے میں اس خاتون نے  تھوڑا سا پس و پیش کیا۔ شاید اس کی وجہ سے یہ  تھی کہ  وہ میرے چائے والے احسان کو بڑا سمجھ رہی تھی اور مزید پیسے لے کر اپنے خود غرض  ہونے کا ثبوت نہیں دینا چاہتی تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے زبردستی وہ پیسے اس ہاتھ کو تھما دیئے۔ اور اس نے ہاتھ  میں موجود نان میز پر رکھ کر دونوں  ہاتھ اٹھا کر مجھے دعاوں سے  نوازنا شروع کردیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے راستے پر چل پڑا۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے  تھوڑا آگے جاکر میں مرکزی  سڑک کی دوسری جانب دیکھا تو  وہاں ایک اعلی شان تین منزلہ  مسجد  زیر  تعمیر  تھی۔ جس  کے سامنے لگے بورڈ پر لکھا تھا رحمانیہ مسجد۔ ساتھ میں نیچے یہ تحریر تھی  کہ خدا  کے گھر کی تعمیر میں اپنا  حصہ ڈالیں اور جنت میں اپنا گھر بنائیں۔ میں نے ان دیکھے خدا کو مخاطب کیا کہ واہ میرے مالک کتنا غریب ہے تو ۔ اب تیر ا گھر چندے سے بنے گا اور جو لوگ بھوکے مر رہےہیں ان  کےلیے تو کچھ کرتو نہیں  رہا ہاں ان کےحصے کا پیسےبھی تیرے گھر کی تعمیر وآرائش پر لگے رہے ہیں۔واہ مالک تیرے رنگ انوکھے۔