Monday 18 August 2014

اب یا پھر کبھی نہیں!!!


اب یا پھر کبھی نہیں!!!
عمران خان صاحب آپ ایک کرشماتی لیڈر اور انسا ن ہیں۔آج قدرت نے آپ کو اس جگہ پر کھڑا کردیا ہے جہاں سے آپ اس قوم کو ایک تابناک اور شاندار مستقبل کی طر ف لے کرجاسکتےہیں۔ قدرت نے آپ کو اس قوم کا کپتان بنادیا ہے اور آپ اس وقت ٹاس جیت کر گراونڈمیں کھڑے ہیں۔اب آپ نے فیصلہ کرنا ہےکہ قوم کو جتوانا ہے یا اس کو شکست کی بھول بھلیوں میں پہنچانا ہے۔تبدیلی کا بلا آپ کے ہاتھ میں ہے اورآپ اس سےملک میں موجود اڑسٹھ سال سے چلنے والی کرپٹ خاندانی سیاست کاراستہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے روک سکتےہیں اور ان بھیڑیوں کے جتھے کوتاریخ کے جنگل میں دھکیل سکتےہیں ۔
اس سب کچھ کےلیے آپ کو چند ایک مطالبات کرنے ہوں گےاور جس طرح کے حالات ہیں ایسے میں یہ ایک سو دس فیصد امکان ہے کہ آپ کے مطالبات مان لیے جائیں گے ۔
1) سب سے پہلے بائیومیڑک سسٹم کے الیکشن میں استعما ل کےلیےقانون پاس کیا جائے۔جس کی وجہ سے ووٹنگ ٹائم ختم ہونے کے پانچ منٹ کے اندر اندر پورے پاکستان کے حلقوں کا نتیجہ سامنے آجایا کرے گااور کوئی بندہ دھاندلی کا رونا نہیں روئے گا۔
2) ہر شناختی کارڈ رکھنے والے پاکستانی کےلیے ووٹ ڈالنا لازمی ہوگا اور نہ ڈالنے والا جرمانے یا قید کی سزا بھگتے گا۔
3) ان انتخابی اصلاحات کے بعدچھ ماہ کے اندر اندر بلدیاتی انتخابی بائیومیڑک سسٹم کےتحت کراکے اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔قوی امکان یہ ہے کہ آپکی کی جماعت ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی۔
4) آپ اپنے سارے جنون، سرمایہ دار دوستوں، ملکی اور غیر ملکی امداد کا رخ خیبر پختون خوا کی طرف موڑ دیں اور اس کواگلے پونے چار سالوں میں پاکستان کا سب سے خوشحال، پرامن، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ صوبہ بنا دیں۔
5) اور پھر پونےچار سال بعد ان اقدامات، اصلاحات اورکامیابیوں کو اپنے انتخابی مہم کےلیے استعمال کریں اور یقین مانیے کہ کوئی بھی آپ اس ملک میں حقیقی تبدیلی لانے سے نہیں روک سکے گااور نہ ہی آپ کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکے گا۔لیکن اگر آپ یہ سب نہ کرسکے تو یقین مانیے کہ نہ صرف آپ کی اٹھارہ سالہ جدوجہد خاک ہوجائے گی بلکہ یہ قوم بھی ہر آنے والےمسیحاسے مایوس ہوجائے گی ۔
۔۔۔ پھر یہاں کوئی نہیں ۔۔ کوئی نہیں آئے گا۔۔
حفیظ درویش

Friday 8 August 2014

یہ انداز مسلمانی ہے!!!



یہ انداز مسلمانی ہے!!!
میری ایک دوست امریکی ریاست شکاگو کے مضافات میں رہتی ہیں۔ ان کا نام نایاب ہے۔نایاب کاچند یورپی ممالک اور امریکہ میں آن لائن سٹورز ہیں۔یہ ایک خوش اخلاق،انتہائی تعلیم یافتہ، معاملہ فہم اور کاروباری معاملات میں  کافی مہارت کی حامل خاتون  ہیں۔انہوں نے مجھے ایک دلچسپ اور کافی حد تک افسوسناک کہانی سنائی ۔یہ اپنے گھر سے بیٹھ کرکمپیوٹر کے ذریعے اپناکام دیکھتی ہیں۔ نایاب کی ایک بہن لندن میں رہتی ہیں جو انہی کے کاروبار میں ان کی معاون اور شراکت دار ہیں۔ان کی بہن  یوکے اور ساتھ کے ممالک میں ان  کاروبار کو دیکھتی ہیں ۔ آڈر بک کرتی ہیں اور بعد میں سامان بھیجوادیتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی بہن نے لند ن میں اپنی مدد کےلیےایک ملازمہ بھی رکھی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یوں ہوا کہ  ملازمہ کام سے چلی گئی۔ کرسمس کی وجہ سے لمبے چوڑے آرڈر مل چکے تھے اور سامان کی بروقت ترسیل ان کےلیے مسئلہ بن گیا۔
نایاب کی بہن نے مسئلہ بتا کران  سے مدد چاہی۔ جس پر انہوں نے اپنی بہن کو ہدایت کی کہ کسی مسلمان لڑکی کو ملازم مت رکھنا۔کیونکہ یہ لوگ کام چور، سست اور بے ایمان ہوتے ہیں۔لیکن ان کی بہن نے مجبوری کی وجہ سے اس مشورے کو پس پشت ڈال دیا اورسامان  کی پیکنگ کےلیے ایک مسلمان لڑکی کوہائر کرلیا۔اس لڑکی کا تعلق اندرون لاہور سے تھا۔جو لندن میں کام کے سلسلے میں مقیم تھی ۔ یہ لڑکی پانچ وقت کی نمازی  تھی ۔ حجاب ہر وقت سر پر، انشااللہ ، ماشااللہ کی گردان  ،ساتھ کے ساتھ اسلامی  حکایات  کا طوفان۔اس لڑکی کواس کی خاکساری  ، تقویٰ اور پرہیز گاری کی وجہ سے  کام پر  رکھ لیا گیا اور اس نے دوسرے دن آکر کام شروع کردیا۔
سامان کی پیکنگ کےلیے نایاب کی بہن نے اپنے فلیٹ کے اندر ہی ایک کمرہ مختص کیا ہوا ہے۔اس دوران یوں ہوا کہ چھٹی آگئی ۔ نایاب کی بہن نے  اپنے شوہر کے ساتھ ایک  پارٹی میں  جانا تھا۔ سنڈے کو انہوں نے لائٹ سی جیولر ی پہنی اور جو بچ رہی اٹھا کر سامان کے پیکنگ کے ڈبوں میں ایک سائیڈ پر چھپا دی۔ تاکہ اگر کوئی چوری ہوئی تو یہ محفوظ رہے جب رات کو وہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس آئیں تو اپنی   جیولری وہاں سے اٹھانا بھول گئیں۔دوسرے دن وہ ملازمہ آئی ۔ اس نے سارا دن کام کیا اور شام کو چلتی بنی۔دوتین دن نایاب کی بہن کو یا دہی نہیں آیا کہ ان  کی جیولری سامان پیک کرنے والے کمرےمیں پڑی ہے۔ پھر ایک دن کسی تقریب میں جانےکا موقع آیا تو یاد آیا کہ جیولری کہا ں ہے۔یہ سوچ کر  پیکنگ والے کمر ے کی طرف بھاگیں۔ خیر انہوں نے جا کر دیکھا تو جیولر ی پڑی ہوئی تھی ۔ لیکن اس میں سے  دوجھمکے غائب تھے۔ جب انہوں نے یہ سب دیکھا تو اپنے شوہر کے ساتھ سارا واقعہ شیئر کیا۔
دونوں میاں بیوی کا ڈائریکٹ شک اسی لڑکی پر گیا۔ لیکن نایاب کےبہنوئی ایک ذہن آدمی ہیں۔ انہوں نے ملازمہ سے براہ راست تفتیش  اورباز پر س  کرنے کی بجائے دوسری راہ نکالی۔ انہوں نے سکیورٹی کیمرہ خریدا اور  خفیہ طریقے سے اسی کمرے میں  لگا دیا۔ کچھ دن بعد  مارکیٹ سے نقلی جیولری خرید کر ڈبوں میں چھپا دی اور اس لڑکی نگرانی کرنے لگے۔ایک دن  جمعہ کے روز وہ لڑکی اپنے معمول کے کام  میں مصروف تھی۔اس دوران اذان ہوئی    تواس نے نماز جمعہ ادا کی۔ کچھ تسبیحات کیں۔ اس کے بعد اپنا کام دوبارہ شروع کردیا۔نایاب کے بہنوئی اس دوران اس کی نگرانی میں مصروف تھے۔سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے  نقلی جیولری والا ڈبہ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے جیولری اٹھا کر دیکھی۔اس کے بعد اس کو دوبارہ واپس رکھ کر اپنےکام میں مصروف ہوگئی۔ پھر نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ ڈبہ  دوبارہ اٹھا کر اس کا جائزہ لینے لگی اور جب کوئی فیصلہ نہ کرپائی تو اسے واپس  اپنی جگہ پر واپس رکھ دیا۔ لیکن چھٹی سے تھوڑی دیر پہلے اس نے ڈبے میں  سے کچھ نکالا اور اپنی پینٹ کی جیب میں رکھ لیا۔
نایاب کے بہنوئی کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔ وہ فوراً اس لڑکی کے کمرے میں گئے اور اس کو بڑےتمیز سے کہا کہ بہنا جو سامان تم نے اٹھایا  ہے وہ مجھے واپس کردو۔ پہلے تو وہ لڑکی مکر گئی کہ اس  نے کوئی ساما ن نہیں اٹھایا۔ لیکن جب انہوں نے اس لڑکی کو کیمرے والی بات بتائی تو اس نے چپ چاپ اپنی جیب سے دوبندے نکال کر نایاب کے بہنوں کے حوالے کردیئےاور جب تھوڑی سی اور تفتیش کی تو مان گئی کہ پہلے  والے  دو جھمکے بھی اسی نے اٹھائے ہیں ۔ نایاب کے بہنوئی نے اس لڑکی کو ساتھ لیا اور اس کے فلیٹ پر جا کر وہ جھمکے بھی برآمد کرلیے۔وہ لڑکی بڑا روئی دھوئی اور منتیں کیں کہ اس کو پولیس کے حوالے نہ کیا اور نہ  ہی جاب  سے نکالا جائے۔ اس نے ہزار وعدے کیے اور قسمیں کھائیں کہ وہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گی۔لیکن نایاب کے بہنوئی نہ مانے۔ چونکہ یہ لوگ بڑے شریف  واقع ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے اس معاملے میں پولیس کوشامل نہیں کیا۔  یہ لوگ اس لڑکی کا مستقبل  خراب نہیں کرنا چاہتےتھےاور نہ ہی اس کی تذلیل کراناچاہتے ہے۔ اس لیے چپ سادھ لی اور اسے  ملازمت سے فارغ کرکے  معاملہ رفع دفع کردیا۔کہانی ختم۔دوستوں سے گذارش ہے کہ آئیں ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اورسوچیں کہ جس خداسے  ہم لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں خود اس سے کتناڈرتےہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے؟    اورساتھ کے ساتھ اس بات پر بھی تفکر کریں کہ جس مکمل ضابطہ حیات کےہم پرچارک ہیں کیا وجہ ہے کہ ہم اس پر خود عمل کرنے سے گریزاں ہیں ؟