Monday 25 November 2013

مولا تیرے رنگ انوکھے

مولا تیرے رنگ انوکھے

آفس سے چھٹی کا دن میں زیادہ تر گھر پر گزارتا ہوں۔لیکن آج اسلام آباد کے  ایف  ایٹ سیکٹر میں تھوڑا سا کام تھا۔ میں  ایف سیکس میں واقع اپنے فلیٹ  سے پیدل چل پڑا۔ دل میں دو مقاصد تھے۔ پہلا کہ کچھ پیسے بچ جائیں گے۔ دوسرا واک بھی ہوجائے گی۔ صبح کے کوئی دس بج رہے تھے۔اگرچہ اکتوبر شروع ہوگیا تھا لیکن گرمی کی شدت میں  کوئی کمی محسوس نہیں ہور ہی تھی۔فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے دو رویہ گھنے درختوں کے باوجود پسینہ آرہا تھا۔ میرے قریب سے دو لڑکے یکے بعد دیگرے گذرے جن کے ماتھوں پر بھی پسینہ چمک رہا تھا۔میں نے گرمی سے بچنے کےلیے اپنی  رفتار مزید دھیمی کردی۔

یونہی آہستہ آہستہ چلتے میں ایف  ایٹ پہنچ گیا۔گرمی اور پسینہ  بہنے کی وجہ سے حالت عجیب سی ہوگئی۔ اگرچہ میں نے صبح کا ناشتہ نہیں کیا تھا۔ لیکن پیاس کی شدت  کی وجہ سے ناشتے کے کھانوں کو دیکھنے کو بھی من نہیں کررہا تھا۔ ذہن میں ایک ہی خیا ل چکرا رہا تھا کہ کہیں سے یخ پانی پیا  جائے۔

ایک ریسٹورنٹ پر پہنچ کر  میں اس کے  اوپن ائیر میں بیٹھ گیا۔ ٹیبل  پر پڑےاسٹیل کے جگ کو  چھو کر دیکھا  تو اس میں موجود پانی کوئی خاص ٹھنڈا نہیں تھا۔ بیرے  کوآواز دے کر ٹھنڈے پانی کا کہااور ارگرد  دیکھنے   لگا۔ ریسٹورنٹ کے سامنے تقریباً ہر ٹیبل پر کوئی نہ کوئی بیٹھ کر کچھ نا کچھ کھا رہا تھا۔ کوئی دس کے قریب میزیں لگی ہوئی تھیں اور ان  کی سائیڈوں پر لگی کرسیوں پر کوئی بیس سے تیس کے قریب لوگ بیٹھے تھے۔ابھی میں نے جائزہ لینا  مکمل ہی کیا ہوگا کہ بیرا ٹھنڈے پانی کا بھرا جگ عجلت میں میرے سامنے دھر کر ساتھ والے ٹیبل پر کوئی  آرڈر لینے چلا گیا۔ میں نے گلاس میں پانی اس کے  کناروں تک بھرا اور غٹا غٹ پی گیا۔ ایک گلاس پانی  نے  اندرتک سکون کی ایک لہر دوڑا دی۔ لیکن پیاس پوری طرح نہیں بجھی۔ میں نے اس کے بعد ایک اور  گلاس پانی کا چڑھایا لیکن اس بار ذرا تمیز سے پانی پیا۔ٹھنڈے پانی نے جیسے اکسیر  کا کام کیا ہو۔ میری جان میں جان آئی اور جس کے بعد میں آس پاس کے ماحول کا مزید  باریکی بینی سے جائزہ لینےلگا۔

یہ ریسٹورنٹ ایک سڑک کے کنارے تھا۔ اس کے سامنے اور دائیں جانب سٹرک تھی۔دائیں جانب  جہاں سڑک مین روڈ سے مل رہی تھی وہاں دو لڑکیا ں خوش گپیوں میں مصروف اپنے آفس یا یونیورسٹی کی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔میں جس ٹیبل پر بیٹھا اس پر آکر دو افرادبیٹھ گئے۔ ایک میرے  ساتھ اورایک سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگیا۔

اس سیکٹر میں چونکہ  ڈسڑکٹ کورٹ ہے اس لیے یہاں  ہوٹلوں پر کھاناکھانے والے وکیل ، وثیقہ نویس اور ان کے  سائل  تھے  ۔میرے ساتھ آکر بیٹھنے والے بھی کسی کورٹ میں پیشی کےلیےآئے تھےاور دونوں ہی سائل تھے۔ان کا جائزہ لینے کے بعد جب میں نے  سامنے دیکھا تو ہوٹل کے کھانےوالے اسٹینڈ کے سامنے ایک بڑھیا کھڑی تھی۔ اس کے لباس سے اندازہ ہوگیا کہ وہ افغانی ہے۔ عمر کوئی ستر سال کے قریب تھی۔ کمزور سی ، قدرتی سفید  اور سرخ رنگت اور چہرے پر بہت ساری جھریاں جن میں ہر پاس سے گذرنے والے راہگیر کےلیےایک التجا ڈوبتی ابھرتی  رہتی ۔ اس خاتون کے ہاتھ میں ایک نان تھا۔ جس کو اس نےدوہرا تہرا کر ایک ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک نوالہ لے کر اس کو دیکھتی اور اس کے بعد  اس کو اپنے پوپلے سے منہ میں ڈال کر چبانے کی کوشش کرتی۔

یہ  بوڑھی عورت کاونٹر کی سامنے گئی اور وہاں کھڑے آدمی سے چھولے مانگے۔ جس کی آواز مجھ تک آئی۔ کاونٹر والے صاحب نے اس  بوڑھی خاتون کے  لفظ کو شعریت عطا کر کے جواب دیا۔اماں چھولےتو رولے  ہیں۔ اس کے بعد کہا کہ اماں معاف کرو۔بوڑھی عورت یہ سن کر وہاں سے ہٹ گئی اور آتے جاتے راہگیروں سے  بھیک مانگے لگی۔ اس کےبعد وہ بوڑھی عورت دوسری جانب چلی گئی۔ اس دوران وہ نوالہ توڑتی جاتی اور سوکھا ہی چباتی رہتی اور اگر اس دوران کوئی پاس سے گذرتا تو صرف ہاتھ ہی سامنے پھیلا دیتی۔ سامنے سےایک خوبصورت اور ماڈرن سا جوڑا آیا اماں نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا یا لیکن ان دونوں یوں اس کے پاس سے گذر گئے جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ اس کے بعد دو لڑکیاں بوڑھی خاتون کو نظر انداز کر کے گذر گئیں۔ میں نے اس دوران جلدی سے ایک  پلیٹ چنے اور دو روٹیوں کا آرڈر دیا۔
میں  اب  اس بات کا انتظار کر رہا تھا  کہ وہ بوڑھی عورت چلتے چلتے میرے قریب سے گذرے تاکہ میں اس کو اپنی طرف بلا  سکوں  اور  اس کو کہوں   کہ وہ اپنے نان میرے چنوں کے ساتھ کھائے۔ اس دوران ویٹر چنے کی پلیٹ اور روٹی لے آیا۔ جب وہ  واپس جانے  لگا تو میں  نے اس کو کہا کہ وہ بوڑھی  عورت کو   میرے طرف بھیج دے۔ اس نے  جا  کر اس ضعیف  خاتون کو کچھ  کہا اور پھر  میری طرف اشارہ کیا ۔ میں نے بھی  دور سے اس کی طرف دیکھ کر اپنے چنے کی پلیٹ کی طرف  اشارہ  کرتے ہوئے کہا کہ آئیں اور میرے ساتھ کھانا کھا لیں۔ یہ  بات  تو اس نے نہیں سنی لیکن میری ساتھ ٹیبل پر بیٹھے دونوں افراد کے کان میں پڑ گئی۔ اس عورت کو  کھانے  کی دعوت قدرے بلندآوازدینا ایک لاشعوری فعل  تھا۔ اس بوڑھی عورت نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر  چلتے ہوئے میری ٹیبل کی طرف آگئی۔ میں نے اپنے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف پڑی خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور اس کو بیٹھنے کا کہا۔

وہ خاتون چپ چاپ اس   کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس دوران میں نے چنے کی پلیٹ اس کی طرف تھوڑی سی کھسکا دی تاکہ وہ    اس میں سے آسانی سے کھا  سکے۔ بوڑھی اماں جی نے نان کاایک نوالہ سالن میں لگا کر منہ میں ڈالا۔جس پر اس اماں نے یوں منہ بنایا جیسے مرچوں کی وجہ سے بچے بناتے ہیں اور پھراپنی کلائی پر موجود قدرے مندمل  دو زخم دکھاکر فارسی میں بولنے  لگیں۔ جو اس نے کہا اس کا لب لباب یہ  تھا  کہ زخموں کےلیے مرچیں اچھی نہیں ہوتیں۔ میں نے پلیٹ اس کی طرف مزید کھسکائی اور مسکرا کر  کہا کہ  اماں جی ایسی کو  ئی بات نہیں ۔ مرچوں والا سالن کھانے سے آپ کو  کچھ  نہیں ہوگا۔ بوڑھی   عورت نے یہ سن کر اپنے ہاتھ میں پکڑے نان میں سے ایک نوالہ  توڑا اور اس کا سرا ہلکا سا شوربے  میں تر کرکے اپنے پوپلے منہ میں ڈال کرچبانے لگی۔

اس کی یہ بے رغبتی  دیکھ کر میں نے ویٹر کوچائے کا آرڈر دیا۔ چائے کا سن بوڑھی  خاتون نے نوالہ شوربے میں لگانے سے گریز کیااور چائے کا انتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر   بعد چائے آگئی اور اس  خاتون  نے گرما گرم چائے کہ ہلکے ہلکے سپ لیتے ہوئے اس کے ساتھ نان کھاناشروع کردیااور اس دوران مجھے دعائیں دینے لگی۔ کامیابی  کی، دوسرے جہاں میں مغفرت کی۔ماں باپ کی سلامتی کی اور دنیا میں اعلی مقام پانے کی۔  میں مسکراتے ہوئے اس کی یہ باتیں سنتا رہا اور ساتھ کے ساتھ اپنا ناشتہ کرتا رہا۔

بوڑھی خاتون کے زخموں کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میرے پاس زخموں کےلیے ٹیوب تھی  جو میں نے اس وقت خریدی تھی جب بند جوتے کی وجہ سے میرے پاوں کی انگلیوں میں زخم ہوگئےتھے۔ یہ ٹیوب لگانے کی وجہ سے میرے زخم دو تین دن میں مندمل ہوگئے۔ لیکن پھر  یاد آیا کہ وہ ٹیوب تو کچھ دن پہلے میں نے کوڑے میں پھینک دی تھی۔ کیونکہ اس کو کھلے ہوئے کوئی چھ ماہ گذر گئے تھے۔ وہ ٹیوب میں نے  شاید ساٹھ روپے کی لی تھی۔  میں نے  حساب  لگایا کہ میری جیب میں کتنے  پیسے ہیں۔ جمع تفریق کی توناشتے کے پیسے نکال لینے کے بعد کوئی تیس روپے بچتے تھے۔اپنی مجبوری کا اندازہ کرکے میں تھوڑا سا اداس ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے غور کیا اس خاتون کے ہاتھ میں گھاس سے بنی ہوئی پنکھی تھی جس سے وہ اپنے ہاتھ کے زخموں پر سے مکھیاں اڑا رہی تھی۔ اس نے آتے ہی یہ پنکھی ٹیبل پر رکھ دی۔ اس وقت تو مجھے لگا کہ بوڑھی عورت کوئی پاگل ہے جو یہ گھاس کی پنکھی بنا کر ساتھ لیے پھر رہی ہے۔لیکن بعد میں  اس کی دور اندیشی پر عش عش کراٹھا۔ اس کے بعد میں نے بوڑھی عورت کے لباس کا جائزہ لینے لگا۔

اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئےاور ان پیوندوں میں استعمال کیے گئے مختلف رنگوں کے دھاگے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے  کہ یہ مختلف اوقات میں لگائے گئے ہیں اور اس لباس کو مستقل بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے۔عید قرباں نزدیک تھی۔ میرا دل میں شدید خواہش ابھری کہ میں اس خاتون کو عید کےلیے کوئی سوٹ لے دوں یا اس کو اتنے پیسے دےدوں کے یہ اپنے لیے ایک سوٹ خرید لے۔ لیکن معاملہ پھر  وہی کہ جیب میں تیس  روپے جو  کہ اس کے جسم پر موجود زخموں کے پیوندوں کو بھرنے کےلیے ناکافی تھے۔میں اس دوران سوچتا رہا اور ناشتہ کرتارہا۔ پھر دل میں خیا ل آیا کہ مجھے اس خاتون سے کچھ بات کرنی چاہیے اگرچہ وہ فارسی میں بات کررہی تھی لیکن  میں اٹکل کے ذریعے اس کی با ت کو سمجھنے  کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ افغانستان کے کس علاقے سے ہیں۔ جس پر اس کہ جو لفظ میرے پلے پڑے وہ یہ تھے کہ وہ کابل کے ایک علاقے ولایت سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں تک جانے کا کرایہ چار  ہزار روپے ہے۔ میرے دل میں کئی سوالات مچلنے لگے اور فارسی نہ آنے  کی وجہ  سے  میں خود پر تلملانے لگا۔ پھر  بی اے میں پڑھی آپشنل فارسی کے چند لفظ یاد کرکے  جوڑنے کی کوشش کی لیکن بری  طرح  ناکام رہا۔

خیر شدید حسرت کے عالم میں  میں نے اپناناشتہ کیا۔ اس دوران وہ بوڑھی  عورتیں کرسی پر بیٹھی آرام سےاپنا   نان پہلے انگلیوں سے مسلتی پھرچائے کے ساتھ نگلتی رہی۔ میں نے ویٹر کو بلا کر  بل  ادا کیا۔ وہ تیس روپے واپس لے کرآیا تو اس میں سے مزید بیس روپے میں نے اس بوڑھی عورت کو یہ کہتے ہوئے دے دیئے کہ اماں جی اس سے شام کو چائے پی لینا۔ بیس  روپے لینے میں اس خاتون نے  تھوڑا سا پس و پیش کیا۔ شاید اس کی وجہ سے یہ  تھی کہ  وہ میرے چائے والے احسان کو بڑا سمجھ رہی تھی اور مزید پیسے لے کر اپنے خود غرض  ہونے کا ثبوت نہیں دینا چاہتی تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے زبردستی وہ پیسے اس ہاتھ کو تھما دیئے۔ اور اس نے ہاتھ  میں موجود نان میز پر رکھ کر دونوں  ہاتھ اٹھا کر مجھے دعاوں سے  نوازنا شروع کردیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے راستے پر چل پڑا۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے  تھوڑا آگے جاکر میں مرکزی  سڑک کی دوسری جانب دیکھا تو  وہاں ایک اعلی شان تین منزلہ  مسجد  زیر  تعمیر  تھی۔ جس  کے سامنے لگے بورڈ پر لکھا تھا رحمانیہ مسجد۔ ساتھ میں نیچے یہ تحریر تھی  کہ خدا  کے گھر کی تعمیر میں اپنا  حصہ ڈالیں اور جنت میں اپنا گھر بنائیں۔ میں نے ان دیکھے خدا کو مخاطب کیا کہ واہ میرے مالک کتنا غریب ہے تو ۔ اب تیر ا گھر چندے سے بنے گا اور جو لوگ بھوکے مر رہےہیں ان  کےلیے تو کچھ کرتو نہیں  رہا ہاں ان کےحصے کا پیسےبھی تیرے گھر کی تعمیر وآرائش پر لگے رہے ہیں۔واہ مالک تیرے رنگ انوکھے۔




Friday 27 September 2013

!یا اللہ حفاظت فرما

حفیظ درویش:
یااللہ حفاظت فرما!

"بیٹا آرام سے بیٹھویہ مسجد ہے۔  یہاں  شرارت کرنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے" ریحان نے اپنے چار سالہ بیٹے کو پیار سے سمجھایا۔ جو لوگوں کے سامنے صفوں پر بھاگتا ہوا ابھی دوبارہ باپ کے پاس  آکربیٹھ گیا تھا۔
ریحان کوئی اتنا مذہبی آدمی نہیں تھا۔ بس جمعہ کے جمعہ مسجد آکر نماز ادا کرلیتااور ساتھ میں اپنے اکلوتے چار سالہ بیٹے نوراللہ کو بھی لے آتا۔اس معصوم فرشتے کو ماں بڑے چاوَ سے تیار کرکے مسجد بھیجتی۔ کام والا کرتا ،موتیوں  سے جڑی ٹوپی اور تلے والا چھوٹا سا کھسہ  پہنے  وہ کسی  ٹی وی کا ننھا  ماڈل لگتا۔مسجد میں  داخل ہونے سے پہلے نور اللہ کھسہ شاپر میں ڈال کر اپنے ساتھ اندر لے آتااور شاپر کو ہاتھ  میں تھامے مسجد کے اندر لوگوں  کی موجود گی سے بے خبر بھاگتا پھرتا۔

ریحان بیٹے کو بڑی مشکل سے اپنے پاس بیٹھاتا۔ لیکن  جب وہ نفل یا سنتیں ادا کرتا تو وہ اس  دوران  بھاگ اٹھتا اور باپ کے سلام پھیرنے پر دوبارہ بھاگا بھاگا باپ کے پاس پہنچ جاتا۔ جس پر ریحان اس کو مصنوعی ناراضگی سے دیکھتا۔ دو چار بڑے بوڑھوں  نے ریحان  کو  کئی  بارمنع کیا کہ وہ اتنے چھوٹے  بچے  کومسجد میں لے کر نہ آیا کرے۔ کیونکہ اس کی وجہ  سے لوگوں کا دھیان بٹتا ہےاور نماز خراب ہوتی ہے۔ لیکن  ریحان نے کسی کی پرواہ نہ کی۔بلکہ ریحان اس معاملے میں اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کئی دیگر لوگ بھی تھے جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے کر آتے  تھے۔  اس عمل  کے پیچھے ان  سب کا ایک  ہی مقصد تھا کہ اس  طرح کرنے سے بچوں میں دین اور نماز کی محبت پیدا ہوگی اور کل وہ  بڑے ہوکر اچھے مسلمان بنیں گے۔

 ریحان اپنے بیٹے کو پچھلے چھ سات ماہ سے  تقریباً ہر جمعے کو مسجد  لے کر آرہا تھا۔ باپ نما ز پڑھتا اور بیٹا  باپ کی نقل اتارتا جس کے دوران اکثر اس کے دل میں جانے  کیا سماتی کہ سجدے کے دوران قلابازی کھا جاتا ۔ جس کو دیکھ نماز میں مصروف ہونے کے باوجود ریحان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔نماز سے اکتا  کر نور اللہ  صفوں  کے درمیان لوگوں کے سامنے بھاگنے لگتااور اس وقت  تواس کی   عیش ہوجاتی جب سارے لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی میں مصروف ہوتے۔ کیونکہ اس دوران   اسے اور اس جیسے چند دیگر  شیطانوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔

  ریحان سمیت سب دو رکعت نماز جمعہ باجماعت ادا کرکے اذکار میں مصروف  تھے ۔جبکہ نور اللہ بھاگنے کی وجہ سے سرخ ہوکر باپ کے پہلو سے چپکا بیٹھا تھا۔ مولانا صاحب نے دو چار ورد رکرنے کے بعد ہا تھ دعاکےلیے  اٹھا دیئے ۔ جس پر دیگر نمازیوں نے مختلف اندازوں میں اپنے اپنے ہاتھوں کا کشکول بنا لیا۔ تاکہ اللہ کے حضور اس کو پیش کرسکیں۔
مولانا نے درمند لہجے میں دعا شروع کی۔" یااللہ  ہمارے جمعہ کی نماز اپنے بارگاہ میں قبول فرما" 
"آمین" نمازیوں کی اجتماعی جواب سے پوری مسجد گونج اٹھی۔ اس کے بعد  امام صاحب نے ملک وقوم کی سلامتی کے لیے دعا مانگی۔ مسلم امہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف اللہ سے فریاد کی۔کشمیر ، فسلطین ، عراق  ،مصر، افغانستان،برما اور بھارت میں موجود ظلم کے شکار مسلمانوں کےلیے خدا سے  دلگیر لہجے میں عافیت اور امن کی التجا کی۔پھر امام صاحب نے انتہائی  پر جلال لہجے میں کہا

"یا اللہ اس ارض پاک پر شریعت پر مبنی نظام قائم فرما، ایسا  نظام جو تیر ے احکامات کی روشنی میں کام کرے۔ جہاں ہر مسلمان کی عزت جان اور مال محفوظ ہو"نمازیوں کی طرف سے کہی گئی آمین ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا اور اس کے بعد ہر طرف دھویں کے بادل پھیل گے  لوگوں کی  چیخ وپکار  اور افراتفری نے پوری سب  کے حواسوں کو معطل کردیا۔جس کے بعدہر طرف لوگوں کے اعضاء بکھرے پڑے تھے۔ خون چھوٹے تالابوں اور جگہ جگہ دیواروں پر چھینٹوں نے پوری مسجد کو کسی ذبح خانے میں تبدیل کردیا تھا۔

"بہو  ریحان  اور نوراللہ نماز مسجد میں نماز پڑھنے کےلیے گئے ہیں؟"  ریحان کی بیوی  مریم نے  کچن میں کھانا بناتے ہوئے اپنی ساس کی دہشت میں لتھڑی آواز سنی جو نماز پڑھنے کے بعد خبریں سن رہی تھی۔" جی ہاں امی"  مریم نے چولہا کرنے کے بعد کمرے کا رخ کرلیا۔ساس کی آواز سے مریم کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا گیا تھا۔ جب وہ کمرے میں پہنچی تو اس کی ساس سکتے کی حالت میں ٹی وی کی سکرین کو تکے جارہی تھی جس پر   ریسکیو اہلکار زخمیوں اور لاشوں کو گاڑیوں میں ڈال رہے تھے ۔  جبکہ ایک رپورٹر ساتھ کے ساتھ  واقعے کی کمنٹری کر رہاتھا۔ " یہ واقعہ  آدھے گھنٹے پہلے پیش آیا ہےاور اس میں اس وقت تک ریسکیو ذرائع کے مطابق  پچاس لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ جبکہ دو سو کے قریب زخمی ہیں۔مرنے والوں میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ تاحال اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ دھماکہ کس  نے کیا ہے  اور اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ کسی معصوم بچے کے کھسے ہیں جو شاید وہ معصوم فرشتہ اپنے ساتھ مسجد میں لے آیا تھا۔بوڑھے ، بچے اور جوان سب اس واقعے کی زدمیں آئے ہیں۔ دہشت گردوں نے معصوموں کو بھی نہیں بخشا"

چھوٹے سے کھسےکو جیسےہی  فوکس کر کے دکھایا گیا۔ مریم اور اس کی ساس کی اکٹھے  چیخ نکل گئی۔ اس کے فوراً بعد مریم حواس باختہ ہوکر موبائل فون کی طرف بھاگی جو کچن میں  شیلف  کے اوپر اس نے رکھا ہوا تھا۔ " اللہ میرے بچے کی حفاظت فرما۔ یا اللہ ان کی خیرکر، یا اللہ رحم یااللہ رحم " یہ کہتے ہوئے مریم نے ریحان کا نمبر ڈائل کیا۔ اور دوبارہ کمرے میں ٹی وی سکرین کے سامنے کھڑی ہوگی۔ جبکہ اس کی ساس  رو رو کر اوراپنا دوپٹہ  اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں بیٹے اور پوتے کی سلامتی کےلیے دعائیں مانگ رہی تھی۔

"امی ریحان کا فون بند جارہا ہے" یہ لفظ کہنے کے بعد جیسے ہرضبط کا بندھ ٹوٹ گیا اور  ساس بہو چیخ چیخ کر رونے لگیں۔اور اسی کے ساتھ  ٹی وی سکرین  پر بریکنگ نیوز چلنے لگ گئی۔" طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں شرعی نظام نافذ نہیں ہوتا تب تک وہ اپنے حملے اسی طرح جاری رکھیں گے"

https://twitter.com/Hafeez_Darwaish

Monday 23 September 2013

ناکردہ گناہ

حفیظ درویش

ناکردہ گناہ
کمرے کے دروازے پر مدہم سی دستک ہوئی۔ دروازے پر کون ہے اب؟ گھر والے تو سارے باہر گئے ہوئے ہیں اور گیٹ اند ر سے بند ہے۔آفتاب سوچتے ہوئے اٹھا اور جاکر دروازہ کھول دیا۔
"اوہ لبنیٰ تم !آوَ آوَ اندر آوَ" آفتاب دروازے پر خاموش کھڑی لبنیٰ کے لیے دروازہ کھول کر ایک سائیڈپر کھڑا ہوگیا۔
لبنیٰ کی عمر یہی کوئی انیس بیس سال ہوگی اور وہ آفتاب کی ہمسائی تھی ۔ دونوں گھروں کی چھتوں پر دو تین فٹ اونچی سنگل اینٹ کی دیوار تھی۔جس کو یہ لوگ آنے جانے کےلیے اکثر استعمال کرتے تھے۔دیوار پھلانگی اور سیڑھیوں سے اتر کر ایک دوسرے کے گھروں میں چلے گئے۔ عید شب رات یا دیگر  موقعوں پر   کھانے اس راستے سے  ایک دوسرے کے گھر ڈلیور کیے جاتے تھے۔ دونوں گھروں  کے لوگ اس کو شارٹ کٹ کہتے تھے۔
"شارٹ کٹ سے آئی ہو؟" آفتاب نے صوفے پر بیٹھتی ہوئی لبنیٰ سے استفسار کیا۔
"جی ہاں" لبنیٰ مختصر جواب دے کر کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔
"اتنی عرصے تک کہاں تھی تم ؟ میرے خیال ہے تم مجھے کوئی دو ماہ بعد نظر آرہی ہو؟" آفتا ب نے ذرا ناراض سے لہجے میں پوچھااور ایک چیئر کھسکا کرلبنی ٰ کے سامنے بیٹھ گیا۔
"میں اپنے انٹر کے امتحانات میں مصرو ف تھی" لبنیٰ جواب دے کر کتابوں کی الماری کا جائزہ لینے لگی۔
"کافی ساری نئی کتابیں نظر آرہی ہیں آپ کی الماری میں " لبنیٰ نے جیسے زبردستی اس بات کو سراہا ہو۔
"جی ہاں انگلینڈ  والے  چچا  آئے تھے پچھلے دنوں ۔انہیں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔انہیں میرے شوق کا بھی پتہ ہے۔ کوئی درجن بھر کتابیں اپنے ساتھ لے آئے تھے اور کچھ یہاں  سے  خرید کر گفٹ کردیں۔"
 "اچھا ہے" لبنی ٰ نے جیسے کسی اور خیال کی رو میں بہتے ہوئے یہ لفظ کہےہوں۔
"کیا بات ہے گڈیا؟اتنی خاموش کیوں ہو؟کوئی پریشانی ہے کیا؟"آفتاب نے پریشان ہوکر ایک ہی سانس میں دو تین سوال پوچھ لیے۔
آفتاب نے آج تک اسے اس طرح خاموش نہیں دیکھا تھا۔اس کی زبان بلٹ ٹرین کی اسپیڈ سے چلتی تھی اور شرارتوں کی تو جیسے اس کے پاس زنبیل تھی۔نت نئی شرارتیں  کرنا گویا اس کی ہابی تھی۔ باتوں کی اتنی رسیا کہ ابھی آفتا ب سے  اس کی جاب کا حال لے رہی ہے تو دوسرے سانس میں پاس سے گذرتی اس کی امی سے پوچھ لیتی کہ خالہ بیٹے کی شادی کب کررہی ہیں۔ بالوں میں چاندی اترآئی ہے۔ اب تو کردیں۔ جس پرآفتاب کی امی مسکرا کر گذرجاتی جبکہ چھوٹی کسی کمرے کی کھڑکی سے سر  نکال کر جواب دیتی ۔ لبنیٰ تم پریشان نہ ہو۔ بھائی  کی جاب کو دو سال  پور ے ہوگئے ہیں اوران کی پوروموشن بھی ہوگئی ہے ۔  بہت جلد ہم اپنے بھیا کے لیے پیاری سے دلہن لے کر آئیں گے۔
پیار ی سی دلہن۔اونہہ شکل دیکھی ہے اپنے بھائی کی۔اُس پیاری سی دلہن کوتمہارے بھائی سے شادی کرنے کی بجائے میں   مرنے کا مشورہ دوں گی۔جس پر چھوٹی تلملا کر کوئی کڑوی سے بات کرتی جس کے جواب میں لبنیٰ آگے سے زبان نکال کر دو کانوں پر ہاتھ رکھ کر پروں کی طرح پھڑپھڑاتی۔اس کے بعد آفتا ب کی طرف مڑ کر سرگوشی کرتی۔ کیوں بھئی آپ کی سمیر ا کا کیا حال ہے۔ سنا ہے آپ کی فیملی نہیں مان رہی ۔ اس کےبعد آنکھ مار کر کہتی کہ محنت جار ی رکھیں ڈئیر ۔ بچی آپ کو ہی ملے گی۔میر ی آنٹی سے گپ شپ ہوئی ہے اس حوالے سے۔تھوڑی سے محنت کریں مان جائیں گی۔اس کے بعد وہ گھر جانے کے لیے شارٹ کٹ کا استعمال کرتی اور سیڑھیوں پر پاوَں دھر کے اور اس بات سے مطمئن ہوکر کہ آفتاب اس کو نہیں پکڑ سکے گا۔ روز سے اس کی امی کو کہتی ۔ خالہ آپ کا بیٹا سمیرا  پھینی کے چکر میں ہے۔ اس کی شادی وہاں نہ ہونے دیجے گا ۔ بچہ خراب ہوجائے۔ جس پر  آفتاب اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا اور سوچتا کہ اس شیطان کا وہ کرے تو کیا کرے۔اس کا پتہ ہی نہ چلتا کہ کس کی سائیڈ لے رہی ۔اس کے بعد جلی بھنی بیٹھی چھوٹی کہتی کہ اس کی نہ تو دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی ۔
اس وقت آفتاب کے سامنےوہ شیطان یوں خاموش بیٹھی تھی جیسے پچھلے دوما ہ میں دھیان گیان کے بعد اسے  نروان مل گیا ہو۔
"کچھ خاص نہیں  آفتاب بھائی"لبنیٰ نے  کسی سوچ سے باہر آکر ایک گہرا سانس چھوڑتے ہوئے سوگوارسے لہجے میں جواب دیا۔
" چپ چپ بیٹھے ہو ضرور کوئی بات ہے، کسی کے ساتھ ٹانکا  تو نہیں بھڑگیا تمہارا؟" آفتاب نے ماحو ل میں موجود اس بے چین کردینی والی خاموشی کو ختم کرنے کےلیے لبنیٰ کو چھیڑنا شروع کردیا۔
جس پروہ  تقریباً روہانسی ہوکر اور جھنجلا کر  بولی" ایسا کچھ نہیں ہے آفتاب بھائی۔ بھاڑ میں جائے  یہ سب"
اب آفتاب کو معاملے کی سنگینی کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا۔ اور اس بار آفتاب نے تھوڑا  سا کفیوژ ہوکر پوچھا " آخر ہوا کیا ہے؟  تم مجھے  کچھ بتاوَ گی یاصرف پہیلیاں بجھواتی رہو گی؟"
"تو سنیں!  میرارشتہ آیا ہے"اس نے یہ بات یوں کہی جیسے کوئی بہت بڑا بم پھوڑا ہو۔اس جواب کے بعد آفتاب کا قہقہہ چھوٹ گیااور وہ ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا۔ جبکہ  لبنی ٰ بیوقوفوں کی طرح اسے دیکھتی رہی کہ نجانے اس نے ایسا کیا کہہ دیا ہو۔اس کی رونی شکل دیکھ کر آفتاب نےبمشکل خود پر قابو پایا اور دوبارہ شرارتی لہجے میں بولا" کس کے بیچارے کے نصیب پھوٹے ہیں جس نے تمہاری جیسی چڑیل کے لیے رشتہ بھیجا ہے؟"
"آفتاب بھائی"لبنی ٰ نے رو دینے والے لہجے میں یہ بات کہی اوراس بار واقعتاً اس کے آنکھو ں میں آنسو آگئے۔آفتاب یہ دیکھ کر واقعتاً پریشان ہوگیا اور لبنیٰ کے ہاتھو ں  کو اپنے ہاتھو ں لے کر بہت پیار سے بولا۔ "آئی رئیلی سوری  گڑیا۔اچھا اب  بتاو میری بہنا کو کیا ہوا"یہ  ہمدردی کے لفظ سننے تھے کہ وہ زاروقطار رونے لگی۔آفتاب نے اسے رونے دیا۔سوچنے لگا کہ لڑکیاں اس عمر میں اس طرح کی باتوں کو لے کر بہت جذباتی ہوجاتی ہیں ۔چونکہ لبنیٰ نے کئی آفتاب کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ بنے گی اور اس کے بعد اپنی مرضی سے شادی کرے گی۔
شاید اتنی چھوٹی سی عمر میں شادی کا سن کر پریشان ہوگئی  ہے۔"اچھا رونا بند کرو اور یہ پانی پیو" آفتاب نے ساتھ موجود ٹیبل پر پڑے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈال کر اس کو دیا ۔اس دوران اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ، چھوٹی سی ناک اور بھرے بھرے گال سرخ ہوچکے تھے ۔
"اچھا مجھے بتاوَ کس کا رشتہ آیا ہے؟"آفتاب نے  اس کے پانی پی چکنے کے بعد بڑی شفقت سے سوال کیا
"میرے چچا کے بیٹے حماد کا"یہ کہتے ہوئے ایک تلخی سی اس کے لہجے میں پھیل گئی۔
لبنیٰ اور آفتاب کی فیملی پچھلے  بیس سالوں سے ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں رہ رہی تھی ۔اس لیے ان سب کو ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا الف سے ی تک پتہ تھا۔آفتاب کی عمر اٹھائیس سال کے قریب تھی اور اس نے لبنی ٰ کو اپنے سامنے بڑے ہوتے دیکھا تھا۔دونوں گھرانوں کے بچے ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھتے تھےاور ایک دوسرے کی مصیبت میں سگّوں کی طرح پریشان ہوجاتے تھے۔
لبنی ٰ کے دوبارہ رودینے کے ڈر سے آفتاب نے خود کو سنجیدہ رکھا اور پیار بھرے لہجے میں کہا" گڑیا اس میں غلط کیا ہے ؟  تمہارے کزن نے  ایم کیا ہے،آج کل  جاب کی تلاش میں ہے ۔ جو مجھے پورا یقین ہے کہ اسے جلد مل جائے گی اور کونساتمہاری فیملی آج ہی شادی کرنے والی ہے ،فی الحال  تومنگنی ہوگی، دو تین سال بعد شادی ہوگی۔ اس وقت تک تم اپنا بی اے کرچکی ہوگی۔آگے پڑھنے کا ارادہ ہوا تو اپنے کزن کو پیارمحبت سے منا لینا کہ شادی کے بعد تمہیں پڑھنے دے"
"آفتاب بھائی معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے آپ کو لگ رہے ہیں، مجھے نہیں کرنی اپنے کزن سے شادی۔ وہاں جا کر میری زندگی عذاب ہوجائے گی" لبنیٰ نے یہ بات کچھ یوں کہی جیسے وہ آفتاب کوجو سمجھانا چارہی ہے وہ سمجھا نہیں پارہی۔
"کم آن گڑیا! تم کو ایسا شاید اس لیے لگ رہا ہے کہ شادی کے بعد تمہیں روایتی ٹی وی والی ساس سے پالا پڑے گا، تمہاری نندیں تمہاری زندگی عذاب کردیں گئیں،پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوگااور ویسے بھی تم خوش قسمت ہو کیونکہ تمہاری دو کزنیں ہیں جو جوان ہیں،ان کی شادیاں تمہاری شادی سے پہلے ہوجائیں گی،باقی رہ گئی تمہاری چچی تو میرے بچے وہ ایک بوڑھی اور بیمار خاتون ہےاور جلد ہی اس کا رام نام ستے ہوجائےگا، پیچھے بچ جاو گے تم میاں بیوی اور تمہارا چچااور مجھے یاد نہیں کہ آج تک کسی سسر نے اپنی بہو پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہوں۔
"چچا کون سا انسان ہے۔ وہ تو کسی جانور سے بھی بدتر ہے"لبنی نے انتہائی زہریلے لہجے میں کہا۔
"ایسا نہیں کہتے بڑوں کو" آفتا ب نے اسے فوراً ٹوکتے ہوئے کہا۔ پھر کسی خیال سے چونک کر وہ لبنی ٰ سے مخاطب ہوا۔
" کہیں تمہیں یہ تو نہیں لگا رہا کہ وہ تمہارے باپ کی جائیدار پر نظر گاڑے ہوئے ہیں؟ چونکہ وہ تم لوگوں سے جائیداد اور مال ودولت کےمعاملے میں کافی پیچھے ہیں،اس لیے شاید تمہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو مضبوط کرنےکےلیےیہ سب کررہے ہیں" آفتا ب کی اس بات پر وہ لبنی ٰ خاموش رہی ۔
جس کے بعدآفتاب نے بات آگے بڑھائی" ویسے بھی گڑیا مجھے معلوم ہےکہ تم  لوگ کافی خوشخال  ہو۔شہر میں دو چار پلاٹ ہیں۔ انکل کا کافی بڑااور کروڑوں کا بزنس ہے۔اور یہ سب تم دو بہنوں کا ہے۔اب اگر تمہاری شادی کہیں اور بھی ہوتی ہے تو پلاٹ،گاڑی اور پیسہ انکل اس داماد کو بھی دیں گے۔اگر اپنے ایک بھتیجے کو دے دیں گے تو کیا برا ہے۔اور اگر تمہارے چچا اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے ایسا سوچ رہے ہیں تو کون باپ چاہتاکہ اس کی اولاد عذاب میں رہے"
کافی دیر سے خاموش بیٹھی لبنی ٰ نے پھٹ پڑنے والے لہجے میں کہا
"وہ کتا اپنے آپ کو عذاب سے بچانے کےلیے یہ سب کر رہا ہے، اس بے غیرت کو بیٹے کے مستقبل کی نہیں بلکہ اپنی پڑی ہے"
"شٹ اپ لبنی ٰ !بہت ہوگئی تمہاری بکواس" آفتاب نے بھی قدرے چیخ  کرکہا
لیکن لبنی ٰ نے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ وہ اپنی اسی رو میں دوبارہ بولنے لگی۔"آپ کو پتا ہے کہ میرا چچا میرے باپ پر دباوَ ڈال رہا ہے کہ بس اگلے چند دن میں شادی کی جائے۔ اس سور نے میرے باپ کو جذباتی کر کے اپنے حق میں کرلیا ہے۔اور کرے بھی کیوں نا۔ انسان خود کو بچانے کےلیے کیا نہیں کرتا۔اپنا کیا دھرا کسی کے سر پر تو ڈالتا ہے۔جب کوئی اور قربانی کا بکرا نہ ملے تواپنی اولاد کو  قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا"
"کیا اول فول بکے جارہی ہو!مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا"آفتاب نے پریشان ہوکر لبنی ٰ کی طرف دیکھا۔آفتاب کو یہ لبنیٰ وہ نہیں لگ رہے تھی جس کو اس نے دو ماہ پہلے دیکھا تھا۔
" میں کوئی اول فول نہیں بک رہی ، جو سچ ہے وہ بتا رہی ہوں۔ میرا کوئی بھائی نہیں اس لیے ہمیشہ آپ کو اپنا بڑابھائی سمجھا۔آپ پر اعتماد کیا۔ ۔کل رات میری ماں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اگر میں راضی ہوں تو وہ اس رشتے کےلیے ہاں کردیں۔ میرے ذہن میں آپ کا خیال آیا اور میں آپ کے پاس چلی آئی۔ مجھے پتہ تھاکہ آپ کے گھر والے اس وقت موجود نہیں  اس لیےاکیلے میں آپ سے بات کرنے  آگئی۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ  تعلقات ہیں ۔آج میں ایک دوراہے پر کھڑی ہوں ۔میرے پاس دو آپشن ہیں ۔یا تو میں خودکشی کرلوں یا پھر ابورشن کرالوں"
یہ بات سن کر آفتاب چکر اکر رہ گیا اورکافی دیر تک خاموش رہا " اس لیے تم دو ماہ تک نظر نہیں آئی؟ اور کیا تمہار ا چچا!!!!"آفتاب نے فقرہ پورے کیے بغیر لبنی ٰ کی طرف دیکھا جو شکستہ خوردہ اور ٹوٹی ہوئی صوفے میں  بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی اور پھر یک دم اٹھ کر آفتا ب کے گلے  لگ کر بچوں کی طرح ہچکیاں لے کررونے لگی۔
آفتاب بھائی مجھے بچا لیں آفتاب بھیا  مجھے بچا لیں،اپنی گڑیا کو اپنی بہنا کو بچالیں" لبنی نے  ڈرے ہوئے بچوں کی طرح چیختے ہوئے کہا۔لبنیٰ کے اس طرح سینے کے ساتھ لپٹ کررونے سے آفتاب کی آنکھیں بھی بھرآئیں۔
"کچھ نہیں ہوگا میری گڑیا کو ،میں اپنی بہن کو مرنے نہیں دوں گا" آفتا ب نے لبنی ٰ  کو اپنے سینے میں چھپاکرروتے ہوئے جواب دیا۔۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish


Saturday 21 September 2013

غیرت بریگیڈ

حفیظ درویش:
غیرت بریگیڈ
پاکستان میں جو چیز بڑی وافر مقدار میں دستیاب ہے اس کا نام غیرت ہے۔ یہ ہر کس وناکس کےپاس ٹنوں کے حساب سے موجود ہے۔جیب میں پانچ روپے کے نوٹ کی آمد شاذ شاذ ہی ہوتی ہوگی لیکن غیرت سے ان کے خزانے  قارون کی تجوریوں کی  طرح  لبا لب بھرے ہوں گے۔اتنی کثیر تعداد میں غیرت کی موجود گی نے ایک خاص طبقے  کو جنم دیا ہے۔ یہ طبقہ غیرت بریگیڈ کہلاتا ہے۔ اس طبقے کا اوڑھنا ، بچھونا، نہانا دھونا، کھانا پینا اور پڑھنا لکھنا غیرت ہے۔غیرت ان کے انگ انگ میں  ایسے بھری ہوتی ہے جیسے کسی اسٹیج کی ڈانسر کے بدن میں  بجلی بھری ہوتی ہے۔ اکثر اوقات یہ غیرت کے جراثیم آپ کے اندر بھی انڈیلنے کی کوشش  بھی کرتے ہیں۔بے تحاشا غیرت کے مریضوں کی علامت یہ ہے کہ   غیرت بعض  اوقات انکے منہ سے جھاگ کی صورت میں بہتی ہوئی نظر آتی  ہے۔

غیربریگیڈ کے جانثاروں کی چند ایک نشانیاں

ان مجاہدوں کا پہلا ہد ف ہمسایہ  ملک انڈیا ہے۔ جتنی نفرت ان کے دلوں میں انڈیا میں بسنے والے سواا رب لوگوں کےلیے ہے شاید ہی کسی اور کےلیے ہو۔حالانکہ  وہاں تیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان بھی آباد ہیں۔جو ان    کےہم مذہب اور کافی حد تک ہم زبان بھی  ہیں۔ہندو کلچر سے  نفرت ان کی رگوں میں لاوا بن کے بہتی رہتی  ۔یہ اس وقت بھول جاتے ہیں کہ جس مسلم  تہذیب اور کلچر پر فخر کرتے ہوئے ان کا سینہ پھول کر تنبو ہوجاتا ہے وہ  712ء میں یہاں دو ایک علاقوں میں بزور شمشمیر پھیلایا گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہاں موجود  دریائے  سندھ ، موہنجو داڑو، دریائے گنگا  اور جمنا کی تہذیب پانچ ہزار سال سے پرانی ہے۔ یہ وہ تہذیب ہے جس نے لوگوں کو پختہ گھروں، صاف ستھری گلیاں اور آج سے پانچ ہزار قبل پانی کی نکاسی کےلیے پکی نالیاں بنانے کا طریقہ سکھایا۔مندوروں کی گھنٹیاں ، اس کے درو دیوار کے نقش  و نگار اور ان میں موجود مورتیاں جو آرٹ کا شہکار تھیں انہوں علاقوں کے ہنرمندوں کی محنت اور جمالیاتی حس کا نتیجہ تھیں۔برصغیر کے ان علاقوں میں تہذیب نے آنکھ کھولی اور ہمارے آباو اجداد نے اس کو بام عروج پر پہنچایا اور دنیا نے برصغیر کی تہذیب  سے عمارت سازی، مجسمہ سازی، لکھت پڑھت، شاعری ،  تصوف ،روحانیت اوررقص وموسیقی کے میدانوں میں  فیض حاصل کیا۔

غیرت بریگیڈ کا مطالعہ

غیرت بریگیڈ کے  غازیوں کا مطالعہ انتہائی سطحی ہوتا ہے۔انہوں نے مطالعہ کم اور منہ کالا زیادہ کیا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے دوچار اشعار، سستی مذہبی جذباتیت پر مبنی نسیم حجازی کے دوچار ناول، اور یا اور انصار عباسی کے چار کالم ان بقراطوں کا کل اثانہ ہوتے ہیں۔محمود غزنوی کا انڈیا پر حملہ اور محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے سن کو یہ مکمل تاریخ سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو اس بات کا اندازہ تک نہیں کہ عرب کے لق دق صحراوں میں آنکھ کھولنے والے مسلم کلچر کی عمر ابھی جمعہ جمعہ چار دن نہیں ۔ ابھی خود یہ کلچر ارتقا کے اس مرحلے سے گذر رہا ہے جس سے برصغیر کا کلچر آج سے پانچ ہزار سال پہلےنہ  صرف واقف تھا بلکہ چار قدم آگے بڑھ چکا تھا۔معاشرت، انسانی جذبات کا احترام، خواتین کےلیے تحفظ اور برابری کے حقوق ،  امن وامان ، بھائی چارہ  اور برداشت یہ وہ باتیں ہیں جو برصغیر کے کلچر میں آج سے پانچ ہزار سال پہلے موجود تھیں۔  مسلم کلچر کا تاحال  دعوی ہے  کہ  اس نے عورتوں کو حقوق دیئے ہیں۔ برصغیر کے کلچر سے ثابت ہے کہ یہاں کے لوگوں  نے عورت کو دیوی بنا کر پوجا۔ اس سے محبت کی ۔ اس کو احترام دیا۔

غیرت بریگیڈ کا مطالعہ اتنہائی سطحی ہونےکے ساتھ ساتھ ناقص مواد  پر مشتمل ہے۔ میڑک کی جھوٹی سچی مطالعہ پاکستان اور  اسلامیات  میں بمشکل پاس ہونے والے اس بریگیڈ کے غازیوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے یہ عقل کل ہوں۔سائنس ،تاریخ، فلسفہ،ادب، مذہب، تہذیب و تمدن  اور آرٹ پرعالمانہ گفتگو  کو یہ اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی کا کام سمجھتے ہیں۔
 چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم  سارا  جہاں  ہمارا
یہ وہ نعرہ ہے جس نے اس ٹولے کا دماغی توازن خراب کررکھاہے۔حالانکہ زمین حقائق کچھ یوں ہے کہ انڈیا ہر میدان میں ترقی کرتا ملک ہے،کمپیوٹرزسافٹ وئیر انڈسٹری پر اس کی  اجارہ داری ہے۔ چین دنیا کی منڈیوں میں اعلی معیار کی مصنوعات  اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں سب سے آگے ہے۔ سارے  جہاں کے دیگر ملکوں میں امریکہ ، برطانیہ ، کینڈا، فرانس ، جرمنی، روس، سوئٹرزلینڈ، سنگاپور اور جاپان جیسے ترقی کی معراج پر پہنچے ہوئے  معاشی دیو بھی ہیں۔جہاں فلک شگاف عمارتیں ،عقل کو حیران کردینے والے کارنامے۔ خوش خرم عوام  اور علم و فن کی  چکا چوند   آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔

جی بریگیڈ کے جذبے

 یہ تو ہوگی ان کی ممالک کی مادی خوشخالی کا عالم۔ اگر حرب وضرب کے  میدان میں ان کا جائزہ لیا جائے تو جدید ترین ہتھیار جن کا مسلم دنیا کے کسی ملک میں تصور تک نہیں ان کے پاس موجود ہیں۔جن  میں سے متروک ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیار مسلم دنیا کے ممالک خرید کر آپے سے باہر ہورہے ہوتے ہیں۔ سپرسونک طیارے، ایٹمی وار ہیڈز کی ہزاروں کی تعداد میں کھیپ، ایٹمی آبدوزیں، عظیم الشان بحری بیڑے اور ان پر کھڑے سینکڑوں جنگی جہازون کی لائنیں،بین البراعظیمی مار کرنے والے میزائل اور بغیر پائیلٹ کے چلنے والے فائٹر جیٹ اور ڈرون  ،اگر یہ ترقی یافتہ ممالک  چاہیں تو کسی بھی مسلم  ملک کو ایک ہفتے میں ملبے کا ڈھیر بنا دیں۔

خیر بات ہورہی تھی کہ  غیرت مارکہ کی انڈیا سے نفرت کی۔ان جیالوں کےدل میں ہر وقت دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور وہاں کے ریڈیو  اسٹیشن سے " یہ ریڈیو پاکستان دہلی  ہے" سننے   کی  خواہش مچلتی رہتی ہے۔

جی بریگیڈ کے افلاطونوں کی شخیصت میں تضادات 

انڈیا  کے بعد دوسرا ملک امریکہ ہے جس  کی تباہی و بربادی کی پریکٹس یہ اپنے بازار اور اسٹورز جلا کر کرتے ہیں۔مرگ بر امریکہ کے نعرے لگاتے ہیں اور جب بھوک اور پیاس  لگتی ہے تو کوک برگر سے معدے بھر نے  کے بعد منہ بھر بھر کے گالیاں امریکہ کو دیتے ہیں۔جینز، پینٹ شرٹ،جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی آلات کے استعمال پر نازاں ہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ کے ساتھ بقراط بن کر اس نظام کی تباہی اور طرز معاشرت کے خلاف امریکن  ایکسنٹ  میں زہر  اگل رہے ہوتے ہیں۔ اعلی تعلیم کےلیے امریکہ کے ویز ے کےلیے ایمبیسیوں کے سامنے دنوں تک خوار ہونے میں ان کی غیرت  کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ سیلاب کے دنوں میں امریکی امداد، تعلیم ، صحت و صفائی اور دفاعی مدد لیتے ہوئے غیرت بریگیڈ کی حمیت کسی کونے میں محو استراحت ہوتی ہے لیکن جیسے ہی امریکہ کسی شر پسند کو مارنے کےلیے ڈرون اٹیک کرتا ہے یار لوگ اپنی ہی گلی کوچوں کو میدان جنگ بنادیتے ہیں۔ اورامریکہ سے درآمد شدہ  کمپیوٹرز پر بیٹھ کر فیس بکی غیرت مندغیرت ڈرون  آپریٹ کرنے لگتے ہیں۔

جی بریگیڈ کے شر سے بچنے کے چند ایک نسخے

ان کےسامنے انڈیا کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ جیسے کسی فائٹربُل کو سرخ جھنڈی سے چڑ ہوتی ہے ایسے ہی ان کو انڈیا سے ہے۔ ان پر کسی قسم کا اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ انتہائی نفسیاتی مریضوں کےلیے ڈاکٹرز بھی یہی تجویزکہ ان سے اختلاف رائے نہ رکھا جائے کیونکہ وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا سکیں تو خود کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ ان لوگوں کو انڈین فلمیں اور گانے  سننے پر کسی قسم کی تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے اور نہ  ہی جدید دنیا سے درآمد شدہ ،ان کی زیر استعمال اشیاء  پر کوئی   اعتراض کیا جائے۔کوئی غیر جانبدار تاریخی کتاب کو ایسے ہی ان کی پہنچ سے دور رکھا جائے جس طرح دوائیوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے۔اگر یہ گندہ  لولی پاپ چوسنے پر بضد ہوں تو ان کو کہیں کہ ہور چوپو۔ہاں اس دوران اس بات کی کڑی نگرانی کریں کہ آپ کا کوئی بھائی  یا رشتہ دار  نوجوان ان کی سنگت میں نہ بیٹھ پائے۔  جو نوجوان تاحال دماغ سے سوچتے ہیں  ان  کو غیرت بریگیڈ سے ایسے ہی دور رکھیں جیسے مولویوں سے سوہنے بچوں کو دور رکھا جاتا ہے۔ وماعلیناالبلاغ۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish


Friday 20 September 2013

شائستہ اور بلی

حفیظ درویش:

شائستہ اور بلی
شائستہ کو ایک دن گلی میں اپنے دروازے کے سامنے ایک   ننھی اورسفید  بلی ٹھٹھرتی ہوئی ملی۔اس نے اس بے ماں کی بلی کوپالنے کافیصلہ کیا۔شائستہ کی عمر تیس سال کے قریب تھی ۔لیکن اتنی عمر گذرنے کے باوجود اس کی شادی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔شائستہ اور اس کا  ایک کزن ایک دوسرے کو  پسند کرتے تھے  ۔لیکن اس کا چچا زاد کزن اس کی ماں کو ایک نظر نہیں بھاتا تھا۔جس کی وجہ سے یہ شادی رکی ہوئی تھی۔دوسری طرف عمر کی ٹرین تھی کہ مہ وسال کی منزلیں تیزرفتاری سے طے کیے جاری تھی۔
 شائستہ اس ننھی بلی کا بہت خیال رکھتی  اور کبھی کبھار ماں کی نظر بچا کر دودھ اور ملائی بھی ڈال دیتی۔اکثر یوں ہوتا کہ اگر بوٹیاں دو ہوتیں تو  شائستہ ایک خود کھاتی اور ایک بلی کو ڈال دیتی ۔ گرمی اور سردی سے بچانے کےلیے وہ  بلی کا بہت ساراخیال رکھتی ۔ گرمیوں میں اپنے کمرے میں ائیر کولر کے سامنے اور سردیوںمیں اسے اپنی رضائی میں پائنیتی کی طرف سلاتی ۔ وقت گذرتا رہا  اور وہ ننھی بلی جوان ہوگئی۔

دو چار دن سے شائستہ اپنی بلی کی حرکات کی وجہ سے پریشان تھی ۔ وہ کبھی زمین پر لیٹ جاتی ۔ جسم کو فرش پر آڑھا ترچھا کرتی رہتی ۔ عجیب وغریب آوازیں نکالتی  اور کبھی  بے قراری کے ساتھ اپنا جسم شائستہ کے جسم سے رگڑتی رہتی ۔ شائستہ نے اس سے قبل اس کو اس طرح کی عجیب حرکتیں کرتے نہیں دیکھا تھا۔  

ایک دن کچن میں شائستہ کام میں مصروف تھی اور بلی عجیب وغریب آوازیں نکالتے ہوئے  کبھی فرش پر  تو کبھی کسی الماری کے پائے کے ساتھ یا شائستہ کے پاوں کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی پھر رہی تھی۔ اتنی میں شائستہ کی ماں کچن میں آئی ۔ بلی کی ان حرکتوں کو دیکھ   کر وہ تھوڑی دیر سوچتی رہی۔ پھر مسکراتے ہوئے شائستہ سے  مخاطب ہوئی
"اب یہ بلی جوان ہوگئی ہے۔اور اس کو ایک بلے کی ضرورت ہے۔ لیکن میں اس بیچاری کےلیے کوئی بلا کہاں سے لاوَں"

یہ کہہ کر اس نے ایک پلیٹ اٹھائی اورزیرلب مسکراتے ہوئے کچن سے باہر چلی گئی ۔جبکہ شائستہ    اپنی ماں کی یہ بات سن کر سکتے میں آگئی۔ اور سوچنے لگی کہ کیا وہ بلی سے بھی گئی گذری ہے؟؟؟

صاحب ایمان


صاحب ایمان: حفیظ درویش
ایک دن میں نے ایک گارمنٹس شاپ سے دو پتلونیں،دو شرٹیں خریدیں اور آلٹرنگ کرانے کے لیے ایک درزی کو دےکر اس کی شاپ کے سامنے سیڑھوں میں بیٹھ گیا۔۔ اس دوران بجلی چلی گئی اور مارکیٹ کے لوگ دکانوں سے نکل کران کے سامنے بنی سیڑھوں پر بیٹھ گئے۔۔ دو افراد تو اسی سیڑھی پر آکر بیٹھ گئے جس پر میں بیٹھا تھا۔۔میرے اور ان کے درمیان دو فٹ کے قریب فاصلہ ہوگا ۔۔یہ لوگ جس سیڑھی پر میں تھااس سے دو سیڑھیاں اوپر بیٹھ گئے۔۔ اتنے میں ایک تیسرے صاحب آئے اور ان دو افراد کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے ان کے سامنے کھڑے ہوکر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔۔ جو صاحب کھڑے تھے انہوں نے گردن گھما کر سڑک کی طرف دیکھا اور وہاں سے گذرنے والی ایک لڑکی کو بغّور دیکھ کر ذومعنی نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے افراد کی طرف دیکھا۔۔ اس صاحب کی عمر چالیس پنتالیس سال کے قریب ہوگی۔۔سیڑھیوں میں بیٹھے ایک صاحب بولے ،"سالی کی ٹائٹس نے ماحول ہی ٹائٹ کر رکھا ہے"۔۔ جس صاحب نے یہ بات کی اس نے نظر کاچشمہ لگا رکھا تھا۔۔ اس چشماٹو کی بات سن کر میں نے بھی لڑکی کی طرف دیکھا۔۔ لیکن مجھے اس میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا کہ اُس نے ماحول ٹائٹ کر رکھاہو۔۔
جو صاحب کھڑے تھے جواباً مسکرا کر بولے 
"یار نماز پڑ ھ کر آرہا ہوں۔۔ کیوں ایسی باتیں کرتے ہو۔۔۔ ایمان ڈول جائے گا"
چشماٹو حسرت آمیز لہجے میں دوبارہ گویا ہوا" اگر یہ دستیاب آجائے تو میں " 
اور اس کے بعد وہ اپنے عزائم بیان کرنے لگا، جن کو سن کر میرے تو کان لال ہوگئے۔۔ حالانکہ میں اتنا بھولا بھالا بھی نہیں لیکن موصوف کے طرز بیان اور منظر کشی نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔۔ خلوت میں ایک خاتون کے ساتھ وقت گذارنے کے مروجہ اصولوں کے علاوہ وہ اپنی اختراعوں سے سامنے کھڑے ایمان ڈولو کو کماحقہ مستفید کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔ چشماٹو کی عمر بھی چالیس سال کے قریب ہوگی ۔۔ دوران گفتگو مجھے اندازہ ہوا کہ چشماٹو کے دو چار بچے بھی تھے جو آج کل اپنی نانی کے ہاں گئے ہوئے تھے۔۔ بچوں کی ماں بھی ان کے ساتھ گئی ہوئی تھی۔۔ جس کے بعد مجھے اس کا زور بیاں اور حسرت با آسانی سمجھ آگئی۔
اس کے بعدچسماٹو نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اگلے سال سیر کےلیے جائے گا اور اس بار انشااللہ وہ کاغان اور ناران کی وادیوں کے رنگ وبو سے لطف اٹھائے گا۔۔ پھر بولا"سبحان اللہ کیا خوبصورتی ہے اُن علاقوں کی۔۔ کیا حسین وادیاں ہیں۔۔ ان علاقوں کو دیکھ کر خدا پر ایمان پختہ ہوجاتاہے"۔۔ 
اس دوران سامنے کھڑا ایمان ڈولو چلا گیا۔۔ جبکہ چشسماٹو ساتھ بیٹھے صاحب کو اس سے قبل کاغان جانے کا قصہ سنانے لگا۔
"جب میں وہاں پہلی بار چند دوستوں کے ساتھ گیا تو ایک گائیڈ نے ہمیں کہا کہ صاحب آپ لوگ میرے ساتھ آئیں میں آپ لوگوں کو جنوں اور پریوں والی وادی دکھاوَں گا۔۔جس پر میں نے جوتا اٹھا لیا اور اُس کے پیچھے بھاگ پڑا کہ ٹھہر تیری بہن کی۔۔۔ ،، مادر۔۔۔۔ ہمیں بے وقوف سمجھ رکھا ہے"
چسشماٹو نے با آواز بلند گالیاں دیتے ہوئے اپنے کارنامےکی منظر کشی کی۔۔
جس پر ساتھ بیٹھے صاحب نے یوں سر ہلایا جیسے وہ سارےمنظر کو خیال کے پردے پر دیکھ چکا ہو۔۔
اپنے بات کا اثر ہوتا دیکھ کر چشماٹو نے اپنی عقلیت کی دھاک بیٹھانےکے لیے کہا " میں ایسی بے سروپا باتوں پر یقین نہیں رکھتا"
اس دوران چشماٹو نے سامنے والے ہوٹل میں دو کپ چائے کا آڈر انگلیوں سے وی کا اشارہ کر کےدیا ۔۔
جو صاحب چشماٹو کا قصہ غور سے سن رہا تھا اس نے ایک نئی موشگافی کردی۔
" یا ر ٹیکنیکل بات ہے وہاں جن نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ ٹھنڈے علاقے ہیں اور تم جانتے ہو کہ جن آگ کے بنے ہوتے ہیں"۔۔ جس پر میری ہنسی چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔۔اور ساتھ میں میرا دل کیا کہ سر پیٹ دوں، اپنا نہیں بلکہ اس گھامڑ کا۔۔
چشماٹو بولا،" یار یہ فضول باتیں ہیں" ۔۔ جس پر وہ صاحب بولے " کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ جن ہوتے ہیں؟"
جس پر پہلے صاحب بولے ،" میں یہ نہیں کہتا کہ جن نہیں ہوتے، یہ ہرجگہ ہوتے ہیں اور ان کو انسانوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا "
اس دوران چائے آگئی ۔۔ جس پر قصہ سننے والے شخص نے ہوٹل والے لڑکے سے پوچھا کہ ان میں سے پھیکی چائے کون سی ہے؟ جس پر ہوٹل والا لڑکا بولا ،" کوئی نہیں۔۔ دو نوں میٹھی ہیں"
جس پر وہ صاحب بولے" مجھے شوگر ہے،میں یہ چائے نہیں پی سکتا"۔
یہ مکالمہ سن کر چشماٹو نے ساتھ بیٹھے صاحب کوماں کی ایک ننگی سی گالی دی اور پھر ہوٹل والے لڑکے کو کہا " ایک پھیکی چائے لے آو اس سالے کےلیے"
لڑکے کے جانے کے بعد چشماٹوعقیدت کے عالم میں جھوما اور واہ واہ کر کے گویا ہوا” اسلام مکمل شفا ہے، اگر ہم اس دین پر چلیں تو ہمیں کوئی بیماری نہیں چھو سکتی۔۔ ایک ایک بات میں حکمت ، ایک ایک فقرے میں شفا،سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔" یہ کہنے کے بعد وہ چشماٹو نےتفکر میں ڈوبے انداز میں چائے کے دو تین سِپ لیے اور ساتھ بیٹھے شخص سے دوبارہ مخاطب ہوا۔۔
"اگر ہم دین اسلام پر مکمل عمل کریں تو ہم ہر طرح کی بیمار ی سے محفوظ رہیں گے۔۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایک صحت مند اور پاک زندگی گزارنے کےلیے مکمل ضابطہ حیات دے دیا ہے۔۔ اب سور کھانے کو دیکھ لو۔۔ جب انگریزوں نے اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ نقصان دہ ہے اور وہ ٹیم جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا وہ ساری کی ساری مسلمان ہوگئی۔۔۔ واہ واہ سبحان اللہ ۔۔۔ واہ مالک تیری قدرت" یہ کہہ کر چشماٹو سر دھننے لگا جبکہ ساتھ والے شخص کی آنکھوں میں عقیدت کی چمک ابھر آئی۔۔
سر دھنتے دھنتے چشماٹو کی نظر سامنے سے گذرتی لڑکی پر پڑی۔۔ اور سبحان اللہ کا ورد اتنا بلند ہوگیا کہ اس لڑکی کو سنائی دینے لگا۔۔
لیکن اب کے بار سبحان اللہ کے ساتھ ماشااللہ کا بھی اضافہ ہوگیا۔۔ 
جب میں نے چشماٹو کی آنکھوں کا پیچھا کیا تو وہ مجھے لڑکی کےکولہوں سے چپکی ہوئی ملیں۔۔
آنکھیں سینکنے کے بعد چشماٹو نے لڑکی کے کریکٹر کے بارے میں اپنی رائے صادر فرمادی۔۔جس کے مطابق اگر وہ تھوڑی سے تگ ودو کرے تو یہ دوشیزہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح اُسکی جھولی میں آگرے ۔۔ کیونکہ بقول اس کے چال ڈھال سے وہ لڑکی دعوت دے رہی تھی کہ میں‌ایک پکا ہوا پھل ہوں...آ وَ اور کاٹ کے کھا جاوَ ۔۔
میں نے تبصرہ سنا اور پھر لڑکی طرف دیکھ کر اس دعوت کو ڈھونڈ نے لگا جو اس چشماٹو کو تو نظر آرہی تھا اور مجھے اس روشن دن میں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔ خیر میں نے اپنی بصیرت اور بصارت پر افسوس کرتےہوئے دوبارہ چشماٹو کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا جو کہ شاید پھل کاٹ کر کھانے کا سوچ رہا تھا یا کھانے میں مصروف تھا۔۔
"کیا بہن...... چیز تھی" چشماٹو نے اپنے انداز میں لڑکی کے حسن کو داد دی۔۔ 
اس دوران میں اٹھ کر درزی کی دکان میں چلا گیا اور پتہ کیا کہ کتنا کام باقی ہے ۔۔ جس پردرزی نےمجھے کہا کہ بس ایک شرٹ رہتی ہے۔ اور مجھ سے دس منٹ مانگ لیے کیونکہ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مشین ہاتھ سے چلا رہا تھا۔۔
میں دوبارہ آکر سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔۔۔۔اب کی بار چشماٹو کسی صاحب کے دینی حوالے سے پرخچے اڑانےکی بات کررہا تھا کہ کس طرح سے مختلف قرآنی آیات اور احادیث سےمخالف کی دھلائی کردی تھی اور آخر میں اُس سے منوا لیاکہ جو موقف اس کا تھا وہ درست ہے ۔۔پھر چشماٹو ذرا خودستا ئی کرتے ہوئے گویا ہوا " میں نے الحمداللہ ہر مکتبہ فکر کی کتا ب پڑھ رکھی ہے۔۔ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی مشہور کتاب  ہوجو میری نظر سے نہ گذری ہو۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی کوبحث میں جیتے نہیں دیا۔۔ میں ایسی ایسی منطق سامنے لاتا ہوں کہ سامنے والا حیران رہ جاتا ہے اور میری ساتھ اتفاق پر مجبور ہوجاتاہے۔۔ یار کیا کہوں بڑا کرم ہے مالک کا کہیں بھی شکست نہیں ہونے دی اس نے"
اس کے بعد اس کی بات ایڈز کی طرف نکل گئی جس کے دوران اس نے ناجائز جنسی تعلقات پر لعنت بھیجی۔۔ اسلام میں اپنے جیون ساتھی کے ساتھ رہنے کی حکمت پر زور سے سبحان اللہ کہا۔ پھر اس نے کام کے حوالے سے بات کی کہ کس طرح تھوڑی دیر پہلے ایک کاہگ بہت تیز بن رہا تھا اور اس نے پانچ سو کی شرٹ اس کو آٹھ سو میں فروخت کردی۔۔ پھردو خواتین گذریں اور چشماٹو نے تبصرہ فرمایا۔۔ پھر اس نے کہا جیسے کچھ یاد کرتے ہوئے ساتھ والے صاحب سے کہا "تمہیں وہ لڑکی یاد ہے جو اس دن میرے ساتھ بیٹھی تھی جب تم مجھ سے پانچ ہزار مانگنے آئے تھے؟
جس پر دوسرے صاحب نے کہا " ہاں یاد ہے جو اس وقت بیٹھ کر کولڈ ڈرنک پی رہی تھی"
"یہ ہوئی نہ بات " چشماٹو نے اس صاحب کی یاداشت کی داد دیتے ہوئے کہا۔۔ اس کے بعد ذومعنی انداز میں انگوٹھا منہ کے قریب کرتے ہوئے ہاتھ کو بوتل بناکر آنکھ مارتے ہوئے کہا " اس تتلی کو تیرا بھائی پی چکاہے " 
اتنے میں مجھے درزی نے آواز دی کہ آکے اپنے کپڑے اٹھا لیں۔۔ میں سیڑھیوں سے اٹھ کر اندر گیا اور کپڑے اٹھائے اور جب دوبارہ ان لوگوں کے قریب سے گذرنے لگا تو چشماٹو کسی اور تتلی کا کے رس پینے کی بات کررہاتھا ۔۔ 
میں پارکنگ میں گیا اپنا موٹر سائیکل نکالا اورروانہ ہونے سے قبل جب آخری بارمیں نے چشماٹو پر نظر ڈالی تو وہ ہاتھ کے اشارے سے اپنے سینے پر کسی خاتون کے سینے کا سائن بنا رہا تھا اور کچھ کہتے ہوئےاس کو خیالی طور پر دبا رہا تھا۔۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish

Wednesday 18 September 2013

ہمارا معاشرہ اور عورت

ہمارا معاشرہ اور عورت:  حفیظ درویش 

عورت بھی کتنی بد قسمت واقع ہوئی ہے۔ اور اس بد قسمتی میں کافی عمل دخل اس کی خاموشی کو حاصل ہے۔ کیونکہ یہ بہت کم کسی ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔ معاشرہ بھی ایسی عورت کو سراہتا ہے جو خاموشی اور صبر کے ساتھ ظلم کو سہہ جاتی ہے۔ مرضی کے خلاف شادی ، جائیداد میں حصے یا تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ہو۔اس پر عورت کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آتی۔اس کی جو وجہ سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ پچھلے کئی ہزار سال سے عورت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ناقص العقل ہے۔اس کو دنیاوی معاملات کا کوئی ادراک نہیں۔۔ مرد عقل ِکُل ہے اور وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک عورت کےلیے کیا صیح اور کیا غلط ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس مستقل تلقین اور تضحیک نے عورت کی خود اعتمادی کی دھجیاں بکھیردی ہیں ۔۔ وہ خود کو مرد کا محتاج اور عقلی طور پر اُس سے خود کوکم ترسمجھنے لگ گئی ہے مرد نے صرف یہاں پر ہی بس نہیں کی۔بلکہ مذہب، غیرت، عزت اور ناموس کے نام پر اس کو اپنی باندی بنا لیا ۔ اس کےساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنے لگا ۔ جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔۔ جہاں کہیں عورت نے کوئی چون و چرا کرنے کی کوشش کی وہاں مرد نے اس کو دھونس اور طاقت سےدبایا۔۔یہ کتنی حیرت کی با ت ہےکہ دنیا کی کل آبادی کا اکیاون فیصد ہونے کے باوجود عورت یرغمال ہے۔۔ اکثریت میں ہونے کےباوجود اقلیت میں ہے۔۔مرد نے خود کوعورت کا پیدائشی حکمران سمجھ لیاہے۔۔ اور وہ آخری دم تک اس پر مسلط رہتاہے۔۔ اس کااستحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ مرد نے عورت کے بچے پیدا کرنے کے عمل کو نظر انداز کردیا ہے۔۔ وہ اسے بس ایک سیکس ٹوائے سمجھتا ہے۔۔ اوراس کے ساتھ ساتھ وہ یہ ایمان بھی رکھتا ہے کہ عورت شہوت کی ماری ہوئی ہے اور جیسے ہی اسے کوئی موقع ملے گا ۔۔وہ دیگر مردوں کی گود میں بیٹھ جائے گی۔۔ یہ ایک انتہائی شرمناک رویہ ہے کہ مرد اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کو ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس کو پردے میں رکھنے کےلیے ہر ممکن جتن کرتاہے۔۔ کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ یہ گھر سے باہر دوسرے مرد کی بانہوں میں سمانے کےلیے جاتی ہے۔۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سفر کے دوران، بازاروں اور دفاتر میں خواتین فون پر اپنے مردوں کو وضاحتیں دے رہی ہوتی ہیں کہ وہ اس وقت کہا ں ہیں۔۔ حالانکہ جب مرد گھر سے باہر نکلتاہے تو اس کےفون پر اس کے گھر کی خواتین کی کالز کا تانتا نہیں بندھتا۔۔۔۔ ایک مرد کو ہر وقت اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کے حوالے سے دھڑکا لگارہتاہے کہ وہ باہر گئی ہے اوروہ اس کی عزت، غیرت اور ناموس کو پامال کردے گی۔
جب کبھی ان خواتین یا لڑکیوں سے پوچھتاجاتا ہے کہ کیا یہ رویہ شرمناک نہیں تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ہمارے گھر والے ہم سے بہت پیار کرتے ہیں اس لیے ہماری خیر خبر رکھتے ہیں۔ جب سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ آپ جب پسند کی شادی کرنا چاہتی ہیں ، کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے جانا چاہتی ہیں یا جائیداد میں حصہ مانگتی ہیں تو اُس وقت آپ کے گھر والوں کا پیار گالیوں، لاتوں اور گھونسوں کی شکل کیوں اختیار کر جاتا ہے تو تب ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل پاتا۔اس معاشرے میں خواتین کا استحصال مختلف تصورات کے ذریعے کیا جارہا ہے۔
یونیورسٹی میں ہماری ایک کلاس فیلو تھی۔ اس کا بھائی خواتین کی فلاح و بہبود کےلیے ایک این جی او چلا رہا تھا۔ جس کا مقصد خواتین کو ان کےحقوق سے آگہی دیناتھا۔ اس کے علاوہ موصوف نے اپنی پسند کی منگنی کر رکھی تھی۔ جبکہ اپنی بہن کے حوالے سے اس کا رویہ انتہائی شرم ناک اور تذلیل آمیز تھا۔ ہماری کلاس فیلو اگر یونیورسٹی سے جاتے ہوئے لیٹ ہوجاتی تو اس کو کافی باتیں سننا پڑتیں۔ دو تین بار گھر دیرسے جانے اور بھائی کے سامنے بات کرنے پر مار بھی پڑی ۔اُن کے بھائی صاحب کے پاس مارنے کےلیے دلیل یہ تھی کہ میں تمہار ا بڑا بھائی ہوں اور تمہارا برا بھلا بہتر طورپر جانتا ہوں۔ یاد رہے کہ موصوف لندن میں دو سال کا عرصہ بھی گذار چکے تھے۔
 ہمارے معاشرے میں عورتوں کی اکثریت کو گھروں میں موجود فون اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر فون بج رہا ہے تو عورت کسی مرد کو آواز دے گی۔ چاہے وہ گھر کے کسی کونے میں ہو وہی آکر فون اٹھائے گا۔ اس کے علاوہ عورت کو دروازے پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ گھر پر کوئی مرد نہیں ہے تو کسی چھوٹے بچے کو دروازے پر بھیجا جاتاہے کہ وہ دیکھ کر آئے کہ باہر کون ہے۔اگر بد قسمتی سے کوئی لڑکی گھر کےدروازے کے پاس پائی جائے اور ایسے میں باپ یا بھائی گھر آجائے تو پھر اس کی خیر نہیں ہوتی۔ عورت اکیلی بازار نہیں جاسکتی۔ ٹیوشن پر جانا ہےتو بھائی یا باپ چھوڑ کر آئے گا۔ اگر بڑا بھائی نہیں تو ساتھ میں چار پانچ سال کا چھوٹا سابھائی جاتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ دو چار سال چھوٹا بھائی اپنی بہن پر حاوی ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنی دھونس جمانے سے باز نہیں آتا۔اگر ایسے میں کوئی لڑکی اکڑ جائے تو وہ نہ صر ف چٹیا کھینچ دیتا ہے بلکہ شام کو باپ کو بھی بتا دیتا ہے کہ یہ میرے ساتھ بحث کرتی ہے۔ باپ بھی اس معاملےمیں چپ کرجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ خود چاہتاہے کہ بیٹے کا پلڑا بھاری رہے اور اس کی بیٹی سرکشی نہ کرسکے۔
بیٹے اور بیٹی میں تفریق کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔اگر بیٹا پسند کی شادی کرتاہے تو یہ اس کا پیدائشی حق ہے۔ اگر بیٹی کرے تو خاندان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے، باپ کی ناک کٹ جاتی ہے ، بھائی کا سر شرم سے جھک جاتاہے۔اگر بیٹا کسی سے پیار کرتے ہوئے پایاجائے تو ماں باپ صدقے واری۔ بیٹی کا پتہ چلے تو چھریاں اور ڈنڈے چل جاتے ہیں۔بیٹا کسی ہوٹل سے ڈیٹ کرتے ہوا مل جائے تو ہلکی پھلکی سرزنش۔ لڑکی پکڑی جائے تو بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔بیٹا دوستوں کی پارٹی میں جائے تو رات کو دیر سے آنے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ لڑکی نے جانا ہوتو شام سات بجے سے پہلے واپس آنے کی تاکید سوبار کی جاتی ہے۔اگر تھوڑی لیٹ ہوجائے تو موبائل لگاتار بجنے لگتاہے یا پھر باپ یا بھائی گاڑی لے کر پہنچ جاتاہے۔بیٹے کو یونیورسٹی بھیجا جاتا ہے تو کوئی نصیحت نہیں۔ بیٹی کو بھیجا جائے تو ماں پاوَں میں دوپٹے رکھتی ہے کہ ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ باپ الگ سے بلا کر سمجھا کر رہا ہوتاہے کہ بیٹا اپنی پگڑی تمہارے حوالے کر رہاہوں اب اسکی حفاظت کرنا تمہار ا کام ہے۔ بھائی جو چند لمحے پہلے باہر بازار میں کسی کی ماں بہن کو چھیڑ کر آرہا ہوتا ہے، گلوگیر لہجے میں کہتاہے بہن ہمارا سر نہ جھکا دینا۔
یہ منتیں ، ترلے اور واسطے اس وقت بھی دیے جاتے ہیں جب بیچاری عورت جاب کےلیے نکلتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ روا رکھے گئے اس تیسرے درجے کے رویے کو دو طریقوں سے ختم کیا جاسکتاہے۔ سب سے پہلے تو انفرادی سطح پر ہمیں اس کو انسان سمجھنا ہوگا۔ عورت کی اور مرد کی فطری ضرورتوں کو ایک سا خیا ل کرنا ہوگا۔ عورت کے حوالے سے جو تعصب اور بُغض مذہب، خاندان اور ہمارے معاشرے نے ہمارے ذہنوں میں انڈیلا ہے اس سے جان چھڑانی ہوگی۔انسان کے اندر خود کو اور اپنے خیالا ت کو بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بس منطقی اور انسانی بنیادوں پر ہمیں اپنی سوچ پروان چڑھانےکی ضرورت ہے۔تبدیلی کی مخالفت کی بجائے اُسے کُھلے دل سے خوش آمدید کہنے کی روش اپنانا ہوگی۔ عورت کو اپنے شانہ بشانہ لانے میں اس کی مدد کرنا ہوگی۔ ہم نے اس کا بے تحاشا استحصال کیا ہے اور ہمیں ہی اس کا مداوا کرناہے۔
 دوسری طرف حکومت ان کو مضبوط کرنے کےلیے قوانین پاس کرے۔ حکومت کا کردار اس حوالے اہم ہے کیونکہ اس کے پاس کام کرنے کی صلاحیت اور وسائل دونوں موجود ہوتے ہیں۔قوانین کو ہر کسی پر بلا تفریق نافذ کیا جائے اور جو نہ مانے اس سے زبر دستی منوایا جائے۔خواتین کو پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ اور موثر نمائندگی دی جائے تاکہ وہ خواتین کےلیے قانون سازی کرسکیں۔ مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائےا ور امتیازی اور غیر منطقی مذہبی قوانین مثلاً مرد کے مقابلے میں آدھی گواہی، جائیداد میں آدھا حصہ، ریپ کی صور ت میں چار مسلمان گواہوں کی شرط وغیرہ۔ان کو فوراً ختم کیا جائے تا کہ عورت کو بطور انسان اس کی شناخت دوبارہ لوٹائی جاسکے۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish