Saturday 16 July 2016

چند بکھری ہوئی نظمیں اور شعر

چند بکھری ہوئی نظمیں اور شعر اپنے بارے میں۔۔۔ اپنے بھی کون سے روابط ہیں حضرتِ جون سے روابط ہیں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مجد صابری کے نام۔۔۔۔۔ آج خاموش ہے وہ صدا جو ترنم سے لبریز تھی آج خاموش ہے ایک پسٹل تھا گرجا پھر اسی گرج سے آج خاموش ہے وہ صدا جو ترنم سے لبریز تھی اِس سنہری سی آواز کے قاتلو! یہ بتاؤ ہمیں گولیوں کی مدد سے یہ آواز مرکے فنا ہوگئی؟ سب کے کانوں سے کیا یہ جدا ہوگئی؟ قاتلو، جاہلو، بھیڑو، بزدلو، اب سنو! اور اس کو ذرا غور سے تم سنو یہ جو آواز ہے یہ تو مرتی نہیں یہ کسی کے بھی دل سے اترتی نہیں ترنم بھری یہ جو آواز تھی اس نے مرنا نہیں موت کے گھاٹ اِس نے اترنا نہیں حفیظ درویش ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک تازہ شعر۔۔۔۔۔ سبزمہکے ہوئے خوابوں سے بھرا گھر ہو میرا یہ تمنا ہے گلابوں سے بھرا گھر ہو میرا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ زمیں کا روگ ہیں ہم سب محبت چاہیے ہم کو محبت سے ہمیں نفرت یہ دہشت ہم اگاتے ہیں ہے دہشت سے ہمیں نفرت خیانت میں ہیں ہم اول خیانت سے ہمیں نفرت بغاوت ہے مزاجوں میں بغاوت سے ہمیں نفرت سراپا ہم عداوت ہیں عداوت سے ہمیں نفرت ہمیں نفرت سے رغبت ہے ہے نفرت سے ہمیں نفرت تمہیں میں کیا کہوں ہمدم کہ کیسے لوگ ہیں ہم سب سراپا سوگ ہیں ہم سب زمیں کا روگ ہیں ہم سب ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک شعر لہو کے گھونٹ نہ بھرتا تواور کیا کرتا میں تجھ سے عشق نہ کرتا تو اور کیا کرتا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ریل کا سٹیشن جواں ہے۔۔۔۔ شہر کا وہ ریل سٹیشن آج کتنے سال بعد اس کو دیکھاتو لگا آج بھی ویسے جواں ہے آج بھی موجود ہیں پانی کی ٹوٹی ٹینکیاں آہنی جنگلے وہیں ہیں وہ عمارت بھی ہے ویسی اور سلاخی کھڑکیاں بھی پرشکوہ ، مضبوط و قائم اپنے پہلے دن کے جیسی پتھر بھی ویسے ہیں پڑے پٹڑیاں ویسی کی ویسی دور تک جاتی ہوئیں دور کے دسیوں کے خواب آنکھ میں لاتی ہوئیں بچپن میں جب دیکھا تھا اس کو میں تو حیراں ہوگیا تھا اتنے سارےمنظروں میں میں پریشاں ہوگیا تھا شہر کا سٹیشن وہی ہے پلیٹ فارم بھی ہے ویسا میں کہ اب ویسا نہیں ہوں میں کہ اب بچہ نہیں ہوں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تمہارا نام سنتے ہی۔۔۔۔۔ سنو لڑکی! تمہیں اک بات کہنی ہے تمہارا نام سنتے ہی میری دھڑکن مچلتی ہے میری سانسیں مہکتی ہیں میری آنکھیں چمکتی ہیں تمہارا نام سنتےہی ہوائیں رقص کرتی ہیں میری پوریں تھرکتی ہیں تمہارا نام سنتے ہی میرا موسم بدلتا ہے کہ دل کا دیپ جلتا ہے تمہارا نام سنتے ہی میری ہرصبح ہوتی ہے میرا ہرروز ڈھلتا ہے تمہارا نام سنتے ہی ہوائیں گنگناتی ہیں کئی نغمے سناتی ہیں سنو لڑکی! تمہیں اک بات کہنی ہے تمہاری یہ سنہری مسکراہٹ میرا سارا اثاثہ ہے میرے دل کے ورق پر تو تمہارا نام لکھا ہے سنو لڑکی! میں یہ تسلیم کرتا ہوں تمہارے بن ادھورا ہوں کہ اک ٹوٹا ستارہ ہوں مگر یہ بات تو طے ہے کہ میں سارا تمہارا ہوں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک شعر۔۔۔۔ اپنے ہونے کا یقیں ہوتا ہے تو اگر پاس کہیں ہوتا ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ناسٹیلجیا۔۔۔۔۔ سردیوں کی آمد ہے شام سے ذرا پہلے جب شمالی رستوں سے سرد خو ہواؤں کے قافلے اترتے ہیں زاد ِرہ کی گٹھڑی میں کچھ پُرانی یادوں کی راکھ بھی یہ لاتے ہیں اور دل دکھاتے ہیں کچھ پرانی خوشبوئیں سانس میں بکھرتی ہیں کچھ بہار گیتوں کی دلگداز موسیقی دل میں گھلنے لگتی ہے بھولی بسری یادیں بھی ذہن میں اُبھرتی ہیں نہر کے کناروں کو چُھوتا سرد پانی بھی ہاتھ سے لپٹتا ہے شام سے ذرا پہلے دھندمیں اترتی ہیں دور پار کی پریاں شام سے ذرا پہلے دل پہ دکھ برستے ہیں ان خنک سے لمحوں میں سانس جل سا جاتا ہے شام سے ذرا پہلے من مچل سا جاتا ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دل پہ چوٹ پڑتی ہے۔۔۔ زندگی کے رستے پر جن سے آشنائی ہو ان کے روٹھ جانے سے دل پہ چوٹ پڑتی ہے۔۔ جن کو اپنا مانا ہو جن پہ سب لٹایا ہو جن کو روشنی دی ہو جن کو ہرخوشی دی ہو گر وہ آنکھ پھیریں تو دل پہ چوٹ پڑتی ہے جن کو خیر بخشا ہو جن کو سکھ میں پالا ہو جن کو چھت کی راحت سے دھوپ میں نوازا ہو گر وہ ناخلف نکلیں دل پہ چوٹ پڑتی ہے وقت کے بہاؤ میں سب ہی بہتے جاتے ہیں پر جو دل دکھاتے ہیں جو ہمیں مٹاتے ہیں دل سے وہ نہیں مٹتے یاد سے نہیں ہٹتے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دو شعر محبت رابطے سے بالاتر ہے محبت واسطے سے بالاتر ہے محبت کا سفربے حد انوکھا محبت راستے سے بالاتر ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ (ظالموں کے سامنے ڈٹ جانے والی نہتی صبین محمود کے نام ) یہاں کاجبر ٹوٹے گا۔۔۔۔ بھلے یہ جسم مرجائے مگر کب لفظ مرتےہیں بھلے یہ سانس چھن جائے مگر کب خواب چھنتے ہیں تیرا قاتل سمجھتا ہے کہ گولی کی مدد سے وہ زبان خاموش کردے گا ہمارے خواب مارے گا اسے لیکن خبر کب ہے کہ جب اک لفظ مرتا ہے ہزاروں اور جیتے ہیں کہ جب اک خواب مرتا ہے ہزاروں اور اگتے ہیں تمہارے خون سے لڑکی زمین کا رنگ بدلے گا بلاکا شور اٹھے گا درودیوار ظلمت کے زمین پر ڈھیر کردے گا اندھیرا زیر کردے گا یہاں کا جبر ٹوٹے گا یہاں پرنور پھوٹے گا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تم میں گردم ہے!!! میرے بچوں کو مارنے والو میرے بچوں کو چھیننے والو میری بہنوں کو رلانے والو میری ماؤں کو ستانے والو تم کو لگتا تھا کہ تم جیتو گے ننھے ننھےسے ان فرشتوں کو گولیاں مار کے سلادو گے گولیاں مارکے ڈرا دو گے ان کےاُجلی سی وردیاں تم نے خون سے رنگ کر جلاد دیں تھیں ان کے ڈیسکوں پہ خوں بکھیرا تھا ان کی سب کاپیاں اڑا دیں تھیں تم نے سوچا ہمیں ڈرا دو گے تم نے سوچا ہمیں رلادو گے اپنے بالوں کو نوچ لیں گے ہم تم نے سوچاتھا دل دکھا دو گے ہم نے مانا کہ ہم بہت روئے ہم نے مانا کہ ہم بہت چیخے ہم نے مانا کہ جگر میں چیر لگا ہم نے مانا کہ دل میں تیر لگا بزدلوتم کو کیا خبر تھی ہم غم کو طاقت بھی بناسکتے ہیں یہ جو آنسو ہیں اپنی آنکھوں میں ان کو جرات بھی بناسکتےہیں اپنے بچوں کی وردیاں ہم نے اپنے ماتھوں پر باندھ رکھی ہیں ان کے چھلنی سی ٹائیاں ہم نے اپنے ہاتھوں پہ باندھ رکھیں ہیں ان کی بستوں کی راکھ کو ہم نے اپنے چہروں پہ مل کے رکھا ہے قاتلو اب تمہاری باری ہے قاتلو ہم پہ خون طاری ہے ننھے بچوں کو مارنے والو اُن نہتوں کو مارنے والو بزدلو اب نکل کے بات کرو تم میں گر دم ہے ہم کو مات کرو ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہزہائی نیس کے نام۔۔۔۔۔ تم تو کہتے تھے روشنی خود کو کس لیے گھر میں اب اندھیرا ہے!! ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلے جنم موہے کنواری ہی رکھیو

اگلے جنم موہے کنواری ہی رکھیو حفیظ درویش جیکب آباد میں ایک سترہ سالہ لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ کنواری نہیں تھی۔ پاکستان میں عام آدمی کے لئے شاید یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن ایسے لوگوں پر جو اہل دل اور اہل علم ہے اوراس کے ساتھ ساتھ بہن بیٹی بھی رکھتے ہیں ان کے لئے یہ خبر فقط خبر نہیں بلکہ تیر ہے جو ان کے سینوں میں پیوست ہے۔ لڑکی کا نام خانزادی تھا۔ وہ اپنی زندگی کی بس سترہ بہاریں ہی دیکھ پائی تھی اور پھر اسے ایک شقی القلب خاوند مل گیا۔ تصور کیجے کہ اس معصوم لڑکی نے رسم مہندی، بارات، ولیمہ اور پھر سہاگ رات تک کے مرحلوں میں کیسے کیسے خواب اپنی آئندہ زندگی کے حوالے سے دیکھے ہوں گے۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے بھی یہ سوچ کر ہر کام بھاگ بھاگ کر کیا ہوگا کہ ا ن کی بیٹی اور بہن اپنی گھر کی ہوجائے گی۔ لیکن کسے خبر تھی کہ شادی کی دوسری صبح اس معصوم لڑکی کے لئے طلوع نہیں ہوگی۔ کسے خبر تھی کہ ایک ہنستی ، شرماتی ،لجاتی اور معصوم سی روح دوسرے دن کا سورج نہیں دیکھ سکے گی۔ یہ المیہ ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ٹھہریے کہ لفظ المیہ اس واقعہ کی وحشتناکی اور غم کو بیان کرنے کے لئے چھوٹا لفظ ہے۔ یہ واقعہ ماتم کے قابل ہے۔ ہائے اس معصوم لڑکی کے ہاتھوں میں گجرے تھے۔ عروسی جوڑا اس کے تن پر سجا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر سے کل کے دن میں لگایا گیا غازہ اب بھی تک اترا نہیں تھا۔ اس کے لبوں کی سرخی ابھی مدہم بھی نہیں پڑی تھی اور وہ سڑیچر پر مری پڑی تھی۔ دیکھیے، چشم تصور سے دیکھیے۔ ایک معصوم لڑکی کو دیکھیے اور اس کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو دیکھیے۔ آئیے کہ ہم ماتم کریں ۔ ان معصوم بچیوں کو کب تک ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟ شاید بہت دیر تک۔ کیونکہ اس ملک میں کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں۔ اسی سندھ میں جب سیکس ایجوکیشن پر بات ہوئی تو ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ سب ہماری روایات اور اقدار کے خلاف ہے۔ ہاں یہ سب ہماری روایت کے خلاف ہی تو ہے۔ کیونکہ ہماری روایات ہیں کہ زندہ درگور کردو ، کلہاڑیوں سے ٹکڑوں کرڈالو، منہ پر تیزاب پھینک دو، پھانسی پر لٹکا دو یا پھر جلا دو۔ ہاں مگر یہاں پر سیکس ایجوکیشن پر بات کرنا منع ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں بتاتی ہےکہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں۔ ان کو کس طریقے سے پورا کرنا ہے۔ ہمارے جسموں اور جنسی اعضاء کی ساخت میں کیا فرق ہے اور کیوں ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی لڑکی کے کنواری ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ آپ کے بیڈ کی چادروں کو سرخ کرے۔ لیکن یہ بات ہمارے اقدار کے خلاف ہے۔ ہاں یہاں پر مار دینے میں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ٹھیک ہے بھئی مارتے رہو۔ ڈراتے رہو، جلاتے رہو۔ ان رویوں سے لوگ ڈر تو جائیں گے ، منافقت تو کرنے لگیں گے لیکن سدھریں گے نہیں۔ ایسے میں اک دوست کی کچھ عرصہ پہلے آنے والی کال یاد آگئی ہےجو جذبات کی رو میں بہہ گئی تھی۔ اس نے ایسے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا کہ جو اسے ری ورجن کرسکتا ہو۔ کیونکہ چند دن بعد اس کی شادی تھی ۔راقم نے سوچا کہ اس لڑکی کو اس مرحلے سے گزرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی دوشیزگی کا ضامن پردہ کھیل کود میں بھی پھٹ سکتا ہے۔اور وہ اپنے پارٹنر کو یہ کہہ کر مطمئن کرسکتی تھی۔ لیکن وہ اس حوالے سے زیادہ ذہین تھی۔ شاید اسے اندازہ تھا کہ یہ معاشرہ کیسا ہے۔ اس نے آپریشن کرا لیا تھا۔ شکر ہے کہ وہ لڑکی آج اپنے گھر میں محفوظ و مامون ہے۔ اور وہ اپنے شوہر کی نظر میں پاک دامن بھی ہے اور پاک باز بھی ہے۔یہ ہے یہاں کا مرد اور یہ ہے وہ مسائل جو اس کی نام نہاد غیرت اور جہالت کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔ لیکن لوگ منافقت، جھوٹ اور دھوکہ دہی کو قبول کرنےکو تیار ہیں لیکن یہ عقل کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ یہ پاگل اور منافق معاشرہ ہے۔ اس کا مرض بڑھ رہا ہے۔ اور یہ علاج سے بھی سخت گریزاں ہے۔ رہنے دو اسے لاعلاج، اور انتظار کرو کہ یہ خود کو خود ہی مٹا ڈالے۔ پھر وقت اس معاشرے کی باقیات کو کوٹ کاٹ کر برابر کرے اور ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھے۔

Saturday 16 January 2016

کچھ لبرل اور سیکولر کے بارے میں

حفیظ درویش
خدانخواستہ منہ سے اتنا ہی نکل گیا کہ مذہبی انتہا پسندی معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہے تو یار لوگوں نے توپوں کا رخ سیکولر نظریات کی طرف موڑ دینا ہے۔ اور اس کے بعد وہ طوفان بدتمیزی برپا کرنا ہے کہ الامان الحفیظ۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک ڈاکٹر کسی مریض سے کہے کہ تمہاری کمزوری اور جسمانی تکلیف کا باعث فلاں مرض ہے اور مریض بجائے مسئلے کو حل کرنے کے ڈاکٹر پر الزام عائد کردے کہ وہ شدت پسند ہے۔بھئی اگر کسی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے تو اس کا جائزہ لیا جائے نہ کہ بات کرنے والے کی کردارکشی کی جانے لگے یا پھر اس کے نظریات کی تضحیک کی جائے۔کیا کہا کہ آپ کو کسی نظریئے پر تنقید کا حق حاصل ہے؟ تو بھئی اس وقت آپ کیوں شدتِ جذبات سے سرخ پڑجاتے ہیں جب کوئی آپ کے نظریے پر بات کرے؟
ملک میں سوشل میڈیا پر حالیہ روشن خیالی کی تحریک اور سیکولر نظریات کے فروغ سے کچھ اہل دانش شدید قسم کی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔اور اب اٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے جاگتے سیکولرافراد اور سیکولر نظریات کی گوشمالی کررہے ہیں کیونکہ مذہبی شدت پسندوں کے اقدامات اور بیانات کی وکالت کرنے کے لئے ان دانشوروں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے ممدوح افراد کے اقدامات اس قدر غیرانسانی ہیں کہ اس کے دفاع میں بولنا بنیادی انسانی قدروں کی توہین ہے۔ اے پی ایس سکول حملہ ہو، صفورا گوٹھ میں ہونے والا قتل عام ہو، ملتان میں راشد رحمان کا بہیمانہ قتل ہو،قصور میں شمع اور اس کے شوہر کو زندہ جلانے کا واقعہ ہو یا پھر دن دہاڑے شجاع خانزادہ سمیت اٹھارہ لوگوں کی شہادت کا واقعہ ہو، یہ ایسے ظالمانہ اور غیرانسانی اقدامات تھے جن کا دفاع کسی باضمیر پاکستانی کے لئے ممکن نہیں۔
یہ تو رہی ملکی سطح کی صورت حال۔اگر بین الاقوامی سطح پر مذہبی شدت پسندوں کو دیکھا جائے تو ایک عام مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ چاہے نام نہاد داعش کی حکومت اسلامیہ کی قتل و غارت گری ہو۔ یزیدی خواتین کی عصمت دری اور ان کی خریدوفروخت برسرعام سلسلہ ہو۔یا ان کی آزادی کے لئے ہزاروں ڈالرز طلب کرنے کا معاملہ ہو۔ یا پھر نائجیریا میں بوکوحرام کے انتہاپسندوں کی جانب سے سینکڑوں بچیوں کا اغوا اور ان کی فروخت کا سلسلہ ہو۔ ہرجگہ بربریت کا وہ بازار گرم کیا گیا کہ مذہبی سیاست کی شان میں رطب اللسان رہنے والوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ایسے میں سیکولر نظریات کی ضرورت ماضی کی نسبت سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے اور لوگ ایسے کسی حل کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ یہ دہشت و ظلم کا بازار ٹھنڈا پڑے۔
اے پی ایس حملے کے بعد آرمی نے ملک میں موجود شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف دائرہ تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن اب بزور بازو اپنے نظریات کو نافذ کرنے والے اور ان کے ہمدرد اور حامی کافی تذبذب کا شکار ہیں۔ چونکہ عام لوگ یہاں پر فوج کے ساتھ ایک عجیب سے رومانس میں بندھے ہوئے ہیں اس لئے انہوں نے آرمی کے اقدامات کی حمایت کرنا شروع کردی ہے۔ لیکن ایسے میں پوری دنیا پر اپنے جھنڈے لہرانے والوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ یہ گدھے سے گرے ہیں اور کمہار پر برس رہے ہیں۔
اب کوئی بھی سیکولر فرد یہ بات کہتا ہے کہ اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچا چاہیے اور ملک سے سارے شدت پسندوں کا خاتمہ ہوناچاہیے تو فقط مخالفت برائے مخالفت کے چکر میں لوگ سیکولرزکو سینگوں پر رکھ لیتے ہیں۔اور اس سب کے پیچھے ایک بڑا واضح ڈر ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا اور ان کا یہ ڈر بے بنیاد بھی نہیں۔ طالبان، حمید گل کے نظریات کے حامل لوگ، اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کے کالموں کو پڑھ کر غزوہ ہند کی تیاری کرنیوالے مجاہدین جب مذہبی سیاست کے بیانیے کو تہس نہس ہوتا دیکھتے ہیں تو پھر وہ سوچتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوگا اور کون سا نظام یہاں لایا جائے گا۔ اس کے بعد جب وہ چشم تصور سے جمہوری نظام کے آخری پھل یعنی سیکولر جمہوریت کو دیکھتے ہیں تو ان کی دن رات کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ جس کے بعد یہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ بس سیکولر اور لبرل افراد پر چاند ماری کرنے لگتے ہیں۔
ان کی بات کا سْر کچھ یوں بلند ہوتا ہے۔لبرل جھوٹے اور شدت پسند ہیں۔ یہ اس ملک میں بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ بھی طالبان اور دیگر مذہبی شدت پسندوں کی طرح ہیں۔ اگر وہ ایک انتہاپر ہیں تو یہ دوسری پر ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے سارے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کونسے لبرل نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے خودکش جیکٹ باندھی ہے؟ کس نے ہتھیار اٹھائے ہیں یا پھر ہتھیار اٹھانے کی بات کی ہے؟ کس نے کہا کہ بزور بازو سیکولر نظریات کو اس ملک میں لایاجائے؟ بھائی ہم تو کہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ ہے۔ جائیں وہاں اور جو بھی نافذ کرنا ہے اکثریت کی بنیاد پر کرڈالیں۔لیکن چونکہ پارلیمنٹ سے ہمیشہ مذہبی شدت پسندوں کو منہ کی کھانے پڑی اس لئے یہ لوگ نہ صرف جمہوریت بلکہ اس سے وابستہ ہرقسم کے خیر کے دشمن ہوگئے ہیں اور آئے دن عدالت، پارلیمنٹ اور مقننہ کو غیر شرعی قرار دیتے رہتے ہیں۔
انصار عباسی صاحب کھلم کھلا فرماتے ہیں کہ سیکولر اور لبرل اس ملک میں خرابی کی جڑ ہیں۔لیکن دوسری طرف حمید گل اور ملا عمر جیسے لوگ ان کے ہیرو ہیں۔ یہ ان کی پرتشدد اور انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی کے پیروکار ہیں۔ جناب اوریا مقبول جان نے اپنے ایک حالیہ کالم میں موم بتیاں روشن کرنے والے لبرل کو آڑے ہاتھوں لیا اور شمعیں جلانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کو یہودیوں کی رسم قرار دیا۔ چونکہ یہودیوں سے نفرت کرنا یہاں کے لوگوں کے مزاج کا حصہ بنادیا گیا۔ اس لئے جب ہمیں کسی نئی رسم سے نفرت دلانی ہوتو اسے یہودیوں کی رسم کا نام دے دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے کراہت پیدا ہو۔
اس ملک میں گورنر سلمان تاثیر کو گولیوں سے چھلنی کردینے والا ہیرو ہے اور اس کی رہائی کے لئے آئے دن جلوس نکلتے ہیں۔ لیکن اس کی جائے شہادت پر جاکر کوئی دو شمعیں جلا دے تو وہ توہین مذہب کے مجرم ہیں اور کافر ہیں۔ لیکن جناب اوریا سے ہم دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حضور قصور کے ایک گاؤں کے بھٹے پر مزدوری کرنے والی شمع اور اس کے خاوند کو جلانا شدت پسندی ہے نہ کہ کوہسار مارکیٹ میں جاکر کسی کی یاد میں دو شمعیں جلادینا شدت پسندی ہے۔ طالبان کے خلاف سول سوسائٹی ظالمان ظالمان کے نعرے لگا دے تو اسی سول سوسائٹی کو ایول سوسائٹی کہا جانے لگ جاتاہے۔ ایول طالبان کی حمایت کوئی شدت پسندی نہیں لیکن ان کے خلاف ایک نعرہ لگ جائے تو شدت پسندی کا لیبل پکا۔ بندوق لے کر نکل پڑو، یا پھر زبانی کلامی اس ملک میں شدت پسندی کا پرچار کرو تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ لیکن اگر کوئی پیار کی بات کرے یا ویلنٹائن ڈے منانے کی بات کرے تووہ بندہ شدت پسند، مادر پدر آزاد، مغرب کا ایجنٹ اور اسلام کے شعائر کا مذاق اڑانے والا بن جاتا ہے۔

Tuesday 17 March 2015

آنکھ کے بدلے۔۔بے گناہ کی آنکھ


آنکھ کے بدلے۔۔بے گناہ کی آنکھ
حفیظ درویش
عیسائیوں نے چرچ حملوں کے بعد دو بندے مارکر اپنا کیس کافی کمزور کردیا ہے۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے ان کے حق میں جو غیرمشروط بحث چھڑنی تھی اوران پر ہونے والے ظلم کے خلاف جوآواز اٹھنی تھی۔ وہ کافی حد تک دب گئی ہے۔ گاندھی کے مطابق آنکھ کے بدلے آنکھ کا رویہ پوری دنیا کو اندھا کردے گا ۔جبکہ میری نظر میں آنکھ کے بدلے کسی بے قصور آدمی کی آنکھ پھوڑنا پورے پاکستان کے امن کو خطرے میں ڈال دے گا۔قتیل کا یہ شعر سب کےلیے ایک تحریک ہے کہ
دنیا میں اُس سے بڑھ کے منافق نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔۔۔
لیکن لیکن لیکن۔۔۔
بغاوت کریں۔ ضرور کریں۔ پر ہم سب کو یاد رکھنا چاہیےکہ بغاوت اوربے جا قتل وغارت دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔

Wednesday 11 March 2015

ضمیر کا بیرئیر ۔۔۔۔


ضمیر کا بیرئیر ۔۔۔۔
 حفیظ درویش
وہ اسلام آباد میں مری روڈ پر سامنے سے آنے والی  ٹریفک  کے بیچ ٹرانس کی حالت میں کھڑی تھی۔تیس سال سے اوپر کی عمر، قدرےموٹی آنکھیں ،گندمی رنگت،تھوڑا نکلا ہوا قد اور بھرا ہوئے جسم کی وجہ سے وہ کافی بھلی لگ رہی تھی ۔ تن پر موجود  سستے اور بے رنگ سے کپڑے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ اُس کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے۔دوپٹہ سر سے ڈھلکا ہوا تھا۔صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے  روڈ پر بہت زیادہ رش تھا۔ لیکن گاڑیوں والے اس خاتون کو بچاتے ہوئے آس  پاس سے گذر رہے تھے۔پر وہ چپ چاپ کھڑی آنے والی ٹریفک کو آنکھ چھپکے بغیر تکے جارہی تھی۔

 اتنے میں اس کے پیچھے اسے ایک مرد بھاگتا ہوا آیا اور کندھوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کیا اور پھر اس پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ تھوڑی دور آگے جاکر دو  موٹرسائیکل کھڑے تھے۔ جن  میں سے ایک پر دو مرد تھے جبکہ ایک سٹینڈ پر کھڑا تھا۔غالب امکان یہی ہے کہ یہ خاتون اس موٹر سائیکل سے اتر کر اس طرف ٹریفک میں آکر کھڑی ہوگئی تھی۔جس کے بعد مرد نے موٹرسائیکل کھڑی کی ہوگی اور اس کو پکڑنے روڈ کے درمیان آگیا اور وہیں پر اس کو سزادینے لگا۔امکانات سو ہوسکتےہیں کہ یہ عورت ٹریفک کے درمیان کیوں کھڑی تھی۔

ممکن ہے کہ یہ اپنے شوہر سے ناخوش ہو اور اس وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئی ہو۔ بے الاود  ہواور طعنوں نے اس کے حواس چھین لیے ہوں ۔ممکن ہے کہ غربت سے تنگ کر اس نے کسی گاڑی کے نیچے آجانے کا فیصلہ کرلیاہو۔ممکن  ہے کہ اس  کا شوہر اسے  ماں باپ کے گھر ہمیشہ ہمیشہ  کےلیے چھوڑنے جارہا ہو۔ یہ بھی امکان ہے کہ   جو آدمی اس کو تھپڑ مارہا تھا وہ اس کا بھائی، دیور یا کزن ہو۔ سو امکانات ہوسکتے ہیں کہ وہ وہاں کیوں کھڑی تھی۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس عورت  پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں، سرعام اور سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں تھپڑوں کی بارش نہیں ہونی چاہیے تھی۔ایک مسلمان ملک،جہاں چوبیس گھنٹے یہ ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر پھاڑا جاتا ہے کہ خواتین بہت اعلی مقام کی حامل ہیں۔ان کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ یہ عزت اور وقار کے لائق ہیں۔ ان کو پھولوں کی طرح رکھنا چاہیے ۔ جہاں ہر کسی کے  منہ سے یہ مصرعہ سنائی دیتا ہے کہ۔۔وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ۔۔وہاں عورت کی یوں بے توقیر ی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔

تھپڑ مارنے کے بعد وہ (نا)مرد اس بے بس خاتون کو ہاتھ سے پکڑکر موٹرسائیکلوں کی طرف آنے لگ گیا جو تھوڑی آگے کھڑی تھیں۔سب چپ تھے۔کسی نے آگے بڑھ کر اس بندے کا ہاتھ نہیں روکا۔ ہر کوئی گذر رہا تھا۔کسی نے اپنی گاڑی کی سپیڈ ہلکی کرنا بھی گوارا نہ کی۔سب گذر رہے تھے ۔ یہ سب میرے سامنے  پندرہ سے بیس سکینڈ میں ہوا اور اس کے بعد میں اس جگہ  سےکافی آگے نکل گیا۔ہم لوگوں کے لاشعور میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ اگر عورت مار کھا رہی ہے تو یہ معمول کی بات ہے اور اس پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا رویہ عورت  پر تشدد کے حوالے سے سرد ہے۔ یہ مار پیٹ ہم بچپن سے دیکھتے چلے آرہےہیں ۔ سڑک  پر گدھا پٹ رہا ہوں یا عورت ۔ بدقسمتی سے ہمارا رویہ دونوں کے حوالے سے ایک سا ہے۔یعنی تھوڑا ساتاسف کرکے آگے گذر جاتےہیں۔کیونکہ یہ ایک معمول ہے اور معمول سے ہٹ کرکچھ سوچنا اور کرنا ویسے بھی انسانوں کےلیے کافی مشکل ہے۔اس ملک میں مجموعی طور پر جانوروں اور عورتوں کی حیثیت ایک سی ہے۔
میں بھی ان بزدلوں میں شامل تھا جواس عورت کو پٹتے ہوئے دیکھ  کر گذرگئے۔کیونکہ مجھے بھی آفس جانا تھا۔ آس پاس سے گذرتے ہوئے سینکڑوں لوگوں کی طرح  یہ معاملہ میرا معاملہ نہیں تھا۔ گذر تو آیا  لیکن   اب ضمیر کے بیرئیر سے آگے نہیں  جاپارہا  ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور آخر کار میں نے یہ سب لکھ ڈالا۔ میں مانتا ہوں  کہ میرا ایمان اتنا مضبوط نہیں  تھا کہ اس وقت آگے بڑھ کر اس کو روک دیتا۔ لیکن میں اس کو دل میں برا نہیں کہوں گا۔ میں اپنے قلم اور منہ سے اس کو برا کہوں گا۔ امید کرتا ہوں کہ   لفظوں سے شروع کیا ہوا یہ سفر ایک دن کسی ظالم کا ہاتھ روکنے  تک پھیل جائے گا۔

Monday 9 March 2015

حجاب ، عورت کی چوائس یا زبردستی کا نفاذ!!!


حجاب ، عورت کی چوائس یا  زبردستی کا نفاذ!!!
حفیظ درویش
کل شام کے وقت میری چھوٹی   بہن میرے کمرے میں آئی ۔یہ کلاس نائنتھ  کی اسٹوڈنٹ ہے۔اس نے بغیر کسی تمہید کےکہا کہ کل آپ میرے سکول آئیں گے۔ میری ایک مس نے مجھے منہ پر تھپڑ مارا  اور اس نے ایسا دوسری بار کیا ہے۔میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ سکول میں سر سے دوپٹہ ڈھلکنے پراس نے یہ سزا دی ہے۔یہ بات سننی تھی کہ میرا پارہ   چڑھ گیالیکن میں نے اپنے تاثرات پر قابو پاتے ہوئے  کہا کہ میں کل آؤں گا اور پوری بات سنوں گا کہ ہوا کیا ہے۔ویسے مجھے یقین تھا کہ میری بہن غلط بیانی نہیں کررہی لیکن پھر بھی میں اس ٹیچر کا موقف سننا چاہتا تھا۔خیر آج صبح میں سکول پہنچ گیا۔پرنسپل نے اس ٹیچر کو اپنے آفس میں بلایا۔جب میں نے اس کا حلیہ دیکھا تو  مجھے اسی وقت یقین ہوگیا کہ اس بی بی سے بعید نہیں کہ اس نے میری بہن کو مارا ہو۔اس کی عمر کوئی تئیس چوبیس سال ہوگی۔ سر سے پاؤں تک بلیک  ڈھیلاڈھالا گاؤن جس کی وجہ سے اس کا فربہی جسم مزید پھیلا پھیلا لگ رہا تھا۔ سر پر بلیک سکارف  فینسی پن کے ذریعے ٹائٹ کیا ہوا۔موٹے موٹے ہاتھ پاؤں ۔سیاہی مائل گندمی رنگت ۔یہ محترمہ شکل سے جلاد  لگ رہی تھی ۔میں نے جب اس  سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں نے ایک ہلکا سا تھپڑ مارا تھا۔اس  کا موقف تھا کہ  چونکہ یہاں میل ٹیچرز  بھی  ہوتےہیں اس لیے لڑکیوں پر سختی کرنی پڑتی ہے۔
جس پر میں نے پوچھا کہ آپ لڑکیوں کو پیٹنے کی بجائے میل ٹیچرز پرسختی کیوں نہیں کرتی کہ وہ لڑکیوں کے سروں کو نہ گھوریں۔ میرے اس سوال سے ان کے چہرے پر حیرت پھیل گئی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اس کو شاباش دوں گاکہ آپ ہمارے بچیوں کو دوپٹے پہنا کر احسان کررہی ہیں۔اس کے بعد تو میں شروع ہوگیا۔
میں نے کہا کہ آپ کی جو بھی آئیڈیالوجی ہے اس کو گھر تک ہی رکھیں۔آج دنیا بدل رہی ہے۔ فرسودہ خیالات اور روایات کو ترک کیا جارہا ہے۔ ایسےمیں آپ کا یہ رویہ کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ آپ  خود کےلیے حجاب پسند  کرتی ہیں تو سو بار کریں۔ لیکن جن کو پسند نہیں ان پر زبردستی نہ کریں۔
جس پر وہ محترمہ بولی کہ ماڈرن بننے کےلیے فقط دوپٹہ چھوڑ دینا ضروری نہیں ہے۔ لباس تو جانور بھی نہیں پہنتے تو کیا وہ ماڈرن ہوگئے  ہیں؟
جس پر میرا رہا سہا کنٹرول بھی جاتا رہا اور میں نے کہا کہ جس طرح کا لباس آپ نے پہن رکھا ہے انسان ایسا لباس بھی نہیں پہنتے۔یہ توایسا لباس ہے کہ گرمیوں میں بندہ پہن لے تو دم گھٹنے سے بےہوش ہوجائے۔راستے میں چلے تو پورے راستے کی صفائی بھی ہوتی رہے۔اگرموٹرسائیکل یا سائیکل کی چین میں پھنس جائے تو سڑک پر تماشا بن جائے۔کسی ناکے پر  ایسی گاڑی یا موٹرسائیکل کو پہلے روکا جاتا ہے جس پر  کوئی برقعہ  پوش خاتون بیٹھی ہو۔دوسرا ایسےلباس میں پتہ ہی نہیں کہ یہ جو کالا سا گاؤن چلا جارہا ہے اس کے اندر کوئی انسان ہے یا حیوان ۔ایسے میں آپ اس کو انسانوں کا لباس کہتی ہیں۔اب محترمہ کی شکل دیکھنے والی تھی۔اس دوران پرنسپل بولی کہ سر ہم کوشش کریں گے کہ آئند ہ ایسا نہ ہو۔لیکن آپ نے مہربانی کرنی ہے کہ اب اپنی بہن کو یہ نہیں کہنا کہ میں نے آپ کی مس کو کہہ دیا ہےکہ وہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ کیونکہ آپ کی بہن دیگر طالبات کو یہ بات  بتا دے گی۔ جس کی وجہ سے کل دیگر لڑکیاں بھی والدین کو لانا شروع کردیں گی۔جس پر میں نے پرنسپل  سے عرض کی کہ میم یہ بچیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی ماردھاڑ کی شکایت  آپ سے یا اپنے والدین سے کریں۔آپ اپنی ٹیچرز پر توجہ دیں کہ وہ  حجاب جسے غیرضروری  معاملات پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی بجائے  پڑھانے پر توجہ دیں اور اس کے بعد میں نے سلام کیا اور دفتر سے نکل آیا ۔ اور پورے راستے سوچتا رہا کہ اس معاشرے میں مرد شاید عورت کے حقوق کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ نہیں ہیں جتنی کہ خود خواتین ہیں ۔جبکہ مذہبی لوگوں کا یہ نعرہ نرا جھوٹ پر مبنی ہے کہ حجاب عورت کی چوائس ہے۔
حفیظ درویش

Thursday 26 February 2015

شکرہے ۔۔تم قدرت کے آقا نہیں


شکرہے ۔۔تم قدرت کے آقا نہیں
حفیظ درویش
شکر ہے اور ہزار شکر ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی قدرت پر قدرت نہیں ہے۔ یہ سورج جو روز مشرق سے نکلتا ہے  اور اپنی حرارت اور روشنی لوگوں پر نچھاور کرتا ہے ۔اگر یہ ہمارے حکمرانوں کے زیر نگیں ہوتا تو اس کی روشنی غریب پاکستانی عوام کےلیے ایک خواب ہوجاتی۔ ہمارے حکمران   جب اور جس وقت چاہتے ا س کی روشنی اور حرارت لوگوں کو فراہم کرتے اور جب ان کا دل کرتا اس کی لوڈشیڈنگ شروع کردیتے۔ لوگ اپنے معصو م اور ٹھٹھرتے ہوئے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر ان کی منتیں کرتے کہ کچھ دیر کو گرمی عطا کردیں۔ کچھ لمحوں کےلیے اندھیروں سے ہماری جان چھڑا دیں۔ پر ہزار شکر کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ سور ج اپنی روٹین کےمطابق آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ویسے حکومت میں موجود وزراء اس کو دیکھ کر حسرت بھری آہ ضرور بھرتے ہوں گے اور  سوچتے ہوں گے کہ اگر یہ سورج ہمارے قبضے میں ہوتا تو ہم غریب عوام کی جیبوں سے مزید اربوں روپے اسی مد میں نکال لیتے ۔ ایسے میں ان وزراء لیے بس ایک ہی مشورہ ہے کہ
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا
اگر یہ ہواان لوگوں کی دسترس میں ہوتی تو سوچیے کہ لوگوں پر کیا عذاب ٹوٹ پڑتا۔ جگہ جگہ لوگ تڑپتے، سسکتے اور بلکتے ہوئے ملتے ۔ جن کے پاس پیسے نہ ہوتے وہ کسی گلی ، سڑک یا پھر چوراہے پر اپنا گلا پکڑے تڑپ رہے ہوتے جبکہ دیگر لوگ آس پاس سے گذرتے ہوئے ان پر ترحم کی نگاہ ڈالتے۔ موٹی گردنوں والے حکومتی اراکین  ٹی وی سکرینوں پر آکر  دھمکیاں دیتے کہ اگر لوگوں نے بروقت پیسے نہ دیے تویہ اسی طرح مرتے رہیں گے۔ حکومت ہڈ حرامی برداشت نہیں کرسکتی ۔ ان کے اس طرح بغیر کسی معاوضے کے آکسیجن استعمال کرنے سے حکومتی خزانے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
اگر یہ بادل اور بارش ان  کے ہاتھ میں ہوتی تو پھر تب تک کوئی سہانا موسم نہ دیکھ پاتا جب تک حکومتی اداروں کو بھاری بھرکم معاوضہ نہ اادا کردیتا۔جو معاوضہ ادا کردیتا اس کو ایک خاص ہا ل میں لے جاکر فلم کی طرح موسم اور بادل کے رنگ دکھا دیئے جاتے اور پھر وقت ختم ہونے پر اسے آلودہ ماحول میں دوبارہ دھکیل دیا جاتا ۔ شکر کا مقام ہے کہ ان بادلوں پر ان کی حکومت نہیں ۔ یہ ستارے ان کی دسترس میں نہیں ۔ بارش ان سے پوچھے بغیر برستی ہے۔ شکرہے کہ حکمران قدرت کے حاکم نہیں ۔ فیض نے  اپنی نظم "زندان کی شام" میں  کیا خوب چیلنج دیا ہے  ان جیسے حکمرانوں کو۔ اس نظم کےآخری چند مصرعے کچھ یوں ہیں۔
دل میں پیہم خیال آتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگرتو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم مانیں۔