Friday 20 February 2015

بونوں کی زمین سے ایک نظم۔۔۔


بونوں کی زمین سے ایک نظم۔۔۔
میرے چاروں طرف بونوں کے لشکر ہیں
عجب قامت کے بونے ہیں
کہ بونوں کا جو اک معیاری سا قد ہے
اس سے  چھوٹے ہیں
مگر مجھ سے فضیلت مانگتےہیں
یہ عزت مانگتے ہیں
ستائش کی طلب  میں لتھڑے رہتےہیں
حرص کے مارے بونے ہیں
ہوس کے مارے بونے ہیں
مگر مجھ کو اسی الجھن نے گھیر ا ہے  
انہیں میں کیسےسمجھاؤں
کسی ٹیبل یا کرسی پر
بھلے وہ لاکھ چڑھ جائیں
یہ موروثی بیماری تو
( یعنی یہ  چھوٹا قد)  
نہیں جانی ۔نہ جائے گی
مجھ ان پر بلا کا طیش آتا ہے
کبھی میں مسکراتا ہوں
کبھی خاموش رہتا ہوں
میں ان کو کیسے سمجھاؤں
کہ قد آورسبھی  ان کو
کوئی عزت نہیں دیں گے
کبھی عزت نہیں دیں گے
حفیظ درویش

No comments:

Post a Comment