Friday 20 February 2015

بس لیور کھینچنا ہے۔


بس لیور کھینچنا ہے۔
حفیظ درویش
خبر گرم ہے کہ چنیوٹ میں خام لوہے کے 50 کروڑ ٹن کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔جن کےساتھ تانبے، چاندی اور گولڈ بھی دریافت ہوا ہے۔ اس سائٹ پر چین کی ایک کمپنی کھدائی کررہی تھی۔کمپنی نے اس علاقے میں  سٹیل مل لگانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔جس سے نہ صرف ملک کو فائدہ ہوگا بلکہ وہاں کے لوگوں کو بھی اپنی دال روٹی خریدنے کےلیے پیسے میسر آئیں گے ۔گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،کمر کا کچومر نکال دینے والی  مہنگائی  اورٹی وی سکرین سے امڈتی دہشت ناک خبروں  کے سیلاب میں یہ ایک اچھی خبر ہے اور ہر محب وطن پاکستانی کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ۔لیکن لیکن لیکن ۔ ۔ ۔ پاکستانی  عوام شدید مایوس ہے۔ اس بات کا اندازہ  ان کومنٹس سے باآسانی  کیا جاسکتا ہے جو ایک نیوز سائٹ پر اس خبر کےنیچے کومنٹ سیکشن میں  موجود  تھے۔ ایک کومنٹ کچھ یوں تھا۔
 " یہ سارے وسائل چین  اپنی ترقی پر لگائے گا۔ اونٹ کے منہ میں زیرے کےبرابر اگر کچھ پیسے ملے تو وہ بھی سیاستدانوں کو ملیں گے "
ایک اور کومنٹ میں لکھا تھا " دیکھ لینا جیسے پہلے ان سیاستدانوں نے ملک کو لوٹا ہے اسی طرح یہ اس دریافت سے حاصل ہونے والا پیسہ سوئس بینکوں میں چلاجائے گا"
لوگوں کے تحفظات اپنی جگہ بجا ہیں۔ کیونکہ دو دن پہلے ایک خبر آچکی ہے کہ سوئٹرزلینڈ کے صرف ایک بینک میں ایک پاکستانیوں کے ایک ارب ڈالر پڑے ہیں ۔ لیکن بینک نے ان لوگوں کے نام نہیں بتائے۔ دوسرے طرف کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے وزیر خزانہ فرما چکےہیں کہ پاکستانیوں کے تقریباً 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں جن کو واپس لانے کےلیے وہ سوئس بینکوں سے با ت کریں گے ۔پھر کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ انہوں نے تو ایسی کوئی بات کی ہی نہیں ۔
ایسے عالم میں لوگوں کو سیاستدانوں پر یقین کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے ۔ایک خاتون نے فیس بک اپنی مایوسی یوں ظاہر کی " مجھے پاکستانی سیاستدانوں  سے اچھے کی کوئی امید نہیں ہے۔یہ اس ملک کے خیر خواہ بننے کا دعویٰ تو کرتےہیں لیکن اصل میں یہ اس کو لوٹ رہےہیں "
لوگوں کی طرف سے ایسے جملے کہے جانا کوئی نئی بات نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے بدقسمتی سے ملک کے لیے  ایسے کام نہیں کیے جن کی وجہ سے عوام  ان کو اعتما د کے قابل جانیں ۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے  کہ عوام ہی ان کرپٹ سیاستدانوں کو  اقتدار میں لاتی ہے۔  لیکن  عوام بھی کیا کرے۔ اگر وہ ان چند لوگوں کو ووٹ نہ دیں تو اور کس کو دیں۔ وہ ہر بار ووٹ دے کران لوگوں سے خیر کی توقع کرتے ہیں اور ان پر اعتماد کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کی امیدوں کو ہربار نہ توڑیں۔ اگر وہ بار بار وعدہ خلافی  کریں گےاور کرپشن کو جاری رکھیں گے تو یہ قوم مایوسیوں کےپاتال میں اتر جائے گی اور جب کوئی قوم بے حوصلہ اور مایوس ہوتی ہے تو اس کو دنیا سے غائب ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔
لوہے کے نئے ذخائر کی دریافت کو جہاں  لوگ  خدا کا تحفہ قرار دے رہیں  ،وہیں دوسری طرف یہ ڈیبیٹ بھی جاری ہے کہ بلوچستان کے اندر چھپے اربوں ٹن کے ذخائر کو کیوں دریافت نہیں کیا جارہا۔ اس کے علاوہ دریافت شدہ سنڈیک  گولڈ اور تھر کول  کے ذخائر کے انجام پر  بھی بات جاری ہے ۔اس حوالے سے ریکوڈک اور تھرکول پروجیکٹس کی مثالیں دی جاری ہیں ۔تھر میں کوئلے کی دریافت کے بعد  لمبی لمبی بانگیں دی گئیں اور عوام کے گھروں کو سستی بجلی سے منور کرنے کے لمبی لمبی ڈنگیں ماری گئیں لیکن تاحال لوگ کے گھر اندھیروں میں ڈوبے ہیں ۔اندھیرے تو ایک طرف تھر میں سینکڑوں بچوں غذائی قلت کا شکار ہوکرموت کی سیاہ وادی میں اتر گئے ہیں۔ لیکن  حکمرانوں کی کارکردگی صرف تعزیتی جملوں تک محدود ہے اور اگر تھوڑی بہت امدادی سرگرمی ہوئی تو وہ بھی فقط فوٹو سیشن کےلیے ۔ اس سے قبل جب ریکوڈک میں سونے کے ذخائر دریافت ہوئے تو اس کے بعد کرپشن اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم ہوا کہ سپریم کورٹ کو معاملے کانوٹس لینا پڑا۔
فلم "اینی میز ایٹ گیٹس " روسی فوجی اسٹالن گراڈ کے میدان میں شکست کھارہے ہوتے ہیں ۔حالات اتنے برے ہوتے ہیں کہ  جس محاذ پر  روسیوں کو شکست ہوتی  وہاں کا افسر خود کو  خود کو گولی سے اڑا دیتا۔ایسے میں جب ایک محاذ کے  آفیسر نے اپنے جوانوں سے پوچھا کہ ہماری ہار کی وجہ کیا ہے تو ایک سپاہی بولا " ہمارے پاس امید نہیں ہے۔ ہمیں جرمن فوجیوں سے لڑنے کا کہا جاتا لیکن اگر ہم شکست کھا کر واپس بھاگتے ہیں تو اپنے فوجی ہمیں بھون کر رکھ دیتےہیں۔  دونوں طرف ہماری  موت ہے۔ ہمیں امید چاہیے "
اس کے بعد ایک  روسی فوجی ان سب کےلیے امید کی کرن بن گیا اور چند جرمن مار کر ہیرو کا درجہ حاصل کرلیا۔ پھر اس ہیرو سے دیگر فوجیوں  نےامید پکڑی اور اسٹالن گرڈ جرمن فوجوں کا قبرستان بن گیا۔ 
پاکستانی لوگوں کی امید مررہی ہے۔ملک  ایک بے قابو جیٹ کی طرح زمین کی طرف سرعت کے ساتھ جارہا ہے۔ اگر حکمرانوں نے تیزی سے گرتے جیٹ کا اوپر  لیجانے والا لیور نہ کھینچا تو پھر اس تباہی و بربادی کی دنیا مثال دیا کرے گی۔ اس وقت لوگوں کو امید کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment