Monday 9 March 2015

حجاب ، عورت کی چوائس یا زبردستی کا نفاذ!!!


حجاب ، عورت کی چوائس یا  زبردستی کا نفاذ!!!
حفیظ درویش
کل شام کے وقت میری چھوٹی   بہن میرے کمرے میں آئی ۔یہ کلاس نائنتھ  کی اسٹوڈنٹ ہے۔اس نے بغیر کسی تمہید کےکہا کہ کل آپ میرے سکول آئیں گے۔ میری ایک مس نے مجھے منہ پر تھپڑ مارا  اور اس نے ایسا دوسری بار کیا ہے۔میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ سکول میں سر سے دوپٹہ ڈھلکنے پراس نے یہ سزا دی ہے۔یہ بات سننی تھی کہ میرا پارہ   چڑھ گیالیکن میں نے اپنے تاثرات پر قابو پاتے ہوئے  کہا کہ میں کل آؤں گا اور پوری بات سنوں گا کہ ہوا کیا ہے۔ویسے مجھے یقین تھا کہ میری بہن غلط بیانی نہیں کررہی لیکن پھر بھی میں اس ٹیچر کا موقف سننا چاہتا تھا۔خیر آج صبح میں سکول پہنچ گیا۔پرنسپل نے اس ٹیچر کو اپنے آفس میں بلایا۔جب میں نے اس کا حلیہ دیکھا تو  مجھے اسی وقت یقین ہوگیا کہ اس بی بی سے بعید نہیں کہ اس نے میری بہن کو مارا ہو۔اس کی عمر کوئی تئیس چوبیس سال ہوگی۔ سر سے پاؤں تک بلیک  ڈھیلاڈھالا گاؤن جس کی وجہ سے اس کا فربہی جسم مزید پھیلا پھیلا لگ رہا تھا۔ سر پر بلیک سکارف  فینسی پن کے ذریعے ٹائٹ کیا ہوا۔موٹے موٹے ہاتھ پاؤں ۔سیاہی مائل گندمی رنگت ۔یہ محترمہ شکل سے جلاد  لگ رہی تھی ۔میں نے جب اس  سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں نے ایک ہلکا سا تھپڑ مارا تھا۔اس  کا موقف تھا کہ  چونکہ یہاں میل ٹیچرز  بھی  ہوتےہیں اس لیے لڑکیوں پر سختی کرنی پڑتی ہے۔
جس پر میں نے پوچھا کہ آپ لڑکیوں کو پیٹنے کی بجائے میل ٹیچرز پرسختی کیوں نہیں کرتی کہ وہ لڑکیوں کے سروں کو نہ گھوریں۔ میرے اس سوال سے ان کے چہرے پر حیرت پھیل گئی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اس کو شاباش دوں گاکہ آپ ہمارے بچیوں کو دوپٹے پہنا کر احسان کررہی ہیں۔اس کے بعد تو میں شروع ہوگیا۔
میں نے کہا کہ آپ کی جو بھی آئیڈیالوجی ہے اس کو گھر تک ہی رکھیں۔آج دنیا بدل رہی ہے۔ فرسودہ خیالات اور روایات کو ترک کیا جارہا ہے۔ ایسےمیں آپ کا یہ رویہ کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ آپ  خود کےلیے حجاب پسند  کرتی ہیں تو سو بار کریں۔ لیکن جن کو پسند نہیں ان پر زبردستی نہ کریں۔
جس پر وہ محترمہ بولی کہ ماڈرن بننے کےلیے فقط دوپٹہ چھوڑ دینا ضروری نہیں ہے۔ لباس تو جانور بھی نہیں پہنتے تو کیا وہ ماڈرن ہوگئے  ہیں؟
جس پر میرا رہا سہا کنٹرول بھی جاتا رہا اور میں نے کہا کہ جس طرح کا لباس آپ نے پہن رکھا ہے انسان ایسا لباس بھی نہیں پہنتے۔یہ توایسا لباس ہے کہ گرمیوں میں بندہ پہن لے تو دم گھٹنے سے بےہوش ہوجائے۔راستے میں چلے تو پورے راستے کی صفائی بھی ہوتی رہے۔اگرموٹرسائیکل یا سائیکل کی چین میں پھنس جائے تو سڑک پر تماشا بن جائے۔کسی ناکے پر  ایسی گاڑی یا موٹرسائیکل کو پہلے روکا جاتا ہے جس پر  کوئی برقعہ  پوش خاتون بیٹھی ہو۔دوسرا ایسےلباس میں پتہ ہی نہیں کہ یہ جو کالا سا گاؤن چلا جارہا ہے اس کے اندر کوئی انسان ہے یا حیوان ۔ایسے میں آپ اس کو انسانوں کا لباس کہتی ہیں۔اب محترمہ کی شکل دیکھنے والی تھی۔اس دوران پرنسپل بولی کہ سر ہم کوشش کریں گے کہ آئند ہ ایسا نہ ہو۔لیکن آپ نے مہربانی کرنی ہے کہ اب اپنی بہن کو یہ نہیں کہنا کہ میں نے آپ کی مس کو کہہ دیا ہےکہ وہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ کیونکہ آپ کی بہن دیگر طالبات کو یہ بات  بتا دے گی۔ جس کی وجہ سے کل دیگر لڑکیاں بھی والدین کو لانا شروع کردیں گی۔جس پر میں نے پرنسپل  سے عرض کی کہ میم یہ بچیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی ماردھاڑ کی شکایت  آپ سے یا اپنے والدین سے کریں۔آپ اپنی ٹیچرز پر توجہ دیں کہ وہ  حجاب جسے غیرضروری  معاملات پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی بجائے  پڑھانے پر توجہ دیں اور اس کے بعد میں نے سلام کیا اور دفتر سے نکل آیا ۔ اور پورے راستے سوچتا رہا کہ اس معاشرے میں مرد شاید عورت کے حقوق کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ نہیں ہیں جتنی کہ خود خواتین ہیں ۔جبکہ مذہبی لوگوں کا یہ نعرہ نرا جھوٹ پر مبنی ہے کہ حجاب عورت کی چوائس ہے۔
حفیظ درویش

No comments:

Post a Comment