Sunday 22 February 2015

فرق سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔



فرق سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔
حفیظ درویش
وہ زگ زیگ کرتے ہوئے  گاڑیوں کے درمیان سے تیزی سے اپنی کَھڑکی ہوئی  ایف ایکس  بھگائے جارہا تھا۔اس نے مجھے جس طرح کراس کیا اس پر وہ ایک تگڑی سی گالی کا مستحق تھا  لیکن میں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔اس وقت میرا  غصہ مزید بڑھا  جب میں نے دیکھا کہ اس  گاڑی میں دو سکول کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی بیٹھے ہیں۔یہ صاحب شاید گاڑی اس لیے بھگارہے تھے کہ بچے سکول سے لیٹ ہورہے تھے۔اس وقت یہ صاحب جس جگہ تھے وہاں سے کوئی بھی ممکنہ سکول دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔جبکہ اس وقت  آٹھ کر پچیس منٹ ہورہے تھے
ان صاحب کی لمبی داڑھی، شانوں پر بکھرے گنگھریالے سیاہ بال ، سر پر سفید عمامہ اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ یہ صاحب دین پر کاربند ہونے کی ممکنہ کوشش میں مصروف ہیں۔خیر آگے چیک پوسٹ آئی۔اس چیک پوسٹ سے میرا روز گزر ہوتا ہے۔وہاں پر ان صاحب کو دھر لیا گیا تھا۔اب وہاں ایلیٹ فورس کا جوان ان کی گاڑی کے اندر تانک جھانک کررہاتھا اور ان کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہاتھا۔ جس کے بعد اس نے بچوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑی سائیڈ پر لگانے کا اشارہ کردیا۔مجھے ناکے کو کراس کرنے میں تین سے چار سکینڈ لگے ہوں گے لیکن اس دوران ان معصوم بچوں کے چہروں پر پھیلی حیرت اور پریشانی،  موصوف کے چہرے پر آنے والے تکلیف کے آثار اور پولیس  کانسٹیبل کے بگڑے ہوئے تاثرات نے دل پر عجیب سا اثر کیا۔ تھوڑی دیر پہلے جس شخص پر مجھے شدید غصہ آرہاتھا اب اس پر ترس آنے لگا۔اس آدمی کو صرف اس کے حلیے کی بنیاد پر پکڑنا درست نہیں تھا۔گو کہ اس کی شکل و صورت آج کل کے دہشت گردوں کی مبینہ شکل سے مل رہی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک ایسا مسلک بھی پایا جاتا ہے کہ جس کے افراد میں اور طالبان میں فرق کرنا کافی مشکل ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ہم ایک انتہائی مشکل وقت سے گذر رہےہیں ۔اب سادہ لوح مسلمانوں اور طالبان کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس طرح تو پورے ملک میں مسائل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔اس وقت ہمیں داڑھیوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔کس کی داڑھی سنت ہے اور کس کی فرعون جیسی ہے ۔ ہمیں یہ جان کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment