Friday 17 October 2014

ہم ہی زمانے کے امام ہیں


حفیظ درویش
ہم ہی زمانے کے امام ہیں
آج صبح آفس آتے ہوئے راستے میں ایک چوک پر شدید ٹریفک جام تھا۔ اس چوراہے کہ سگنلز ایک لمبے عرصے سے بند پڑےہیں۔کبھی کبھار یہاں ٹریفک وارڈن نظر آجاتا ہے۔ لیکن آج ایک تو رش معمول سے زیادہ تھااور دوسرا وہاں کوئی وارڈن بھی نہیں تھا۔ لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ادھر اُدھر سے نکالنے کی کوشش کررہے تھے جس کی وجہ سے چوراہے پرایک بدترین ٹریفک جام تھا۔ ہر طرف کی سڑک پر گاڑیوں کی لمبی چوڑی قطاریں لگ گئی تھیں۔بمپر ٹو بمپر گاڑیوں کی وجہ سے بائیک نکالنے کی بھی کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ جبکہ چوراہے پر آپس میں پھنسی گاڑیوں کے ڈرائیوروں میں سے کوئی بھی اپنی گاڑی ایک انچ پیچھے لیجانے کو تیار نہیں تھا۔اس صورت حال کی وجہ سے لوگ لیٹ ہورہے تھے لیکن وہ کسی ترتیب کے ساتھ چوراہے سے گذرنے کی کوشش نہیں کررہے تھے۔ جبکہ ٹریفک میں جگہ جگہ سکول کی بسیں اور ویگنیں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ایک آدھ منٹ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد میں نے سوچا کہ یوں تو یہ لوگ اگلے ایک گھنٹے تک اس چوک پر سے نہیں نکل سکیں گے ۔جس کے بعد میں نے اپنی بائیک سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ کے بالکل قریب لگا کر کھڑی کردی اور گاڑیوں سے بچتا بچاتا بیچ چوراہے میں پہنچ گیا۔ جس کے بعد میں نے سب سے پہلے ان گاڑیوں کے ڈرائیووں سے ریکویسٹ کی جو بالکل چوراہے میں کھڑے سارے معاملات کو بگاڑ رہے تھے۔ان میں سے دوتین نے میری بات مان لی اور اپنی گاڑیاں تھوڑی تھوڑی پیچھے کرلیں جس کے بعد ایک گاڑی کے گذرنے کا رستہ بن گیا۔ جس کے بعد میں نے سب سےپہلے چوراہے کے درمیان کی گاڑیوں کو نکلنے میں مدد دی۔ لیکن جیسے ہی میں نے تھوڑی سی جگہ بنائی ہر طرف سےڈرائیوروں نے اس جگہ سے نکلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پھر ٹریفک جام ہوگیا۔ جس پر مجھے شدید غصہ آیا اور میں نے درمیان میں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھادیئے اور ان ڈرائیوروں کو طنزاً اشارہ کیا کہ آپ اب اپنی گاڑیاں نکال کر دکھائیں ۔اس دوران ایک اور صاحب بھی میری مدد کو آگئے تھے۔ جس کے بعد ہم دونوں نے مل کر چوراہا کلئیر کیا اور ایک طرف کی ٹریفک چلادی ۔پھر دوسری سائیڈ کی ٹریفک کو موقع دیا۔ایسے میں دوتین گاڑی والوں نے نکلنے کی کوشش کی ۔ باقی لوگوں نے تعاون کیا اور اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب گشت کرنے والی رینجرز کی گاڑی چوراہے سے تھوڑا آگے جاکر رکی اور اس میں سے رینجرز کے دو جوان چوراہے پر آگئے اور انہوں نے ان ڈرائیوروں کو اشارے سے پیچھے کرنا شروع کردیا جو اپنی گاڑی کو تھوڑا تھوڑا کھسکا کر بیچ چوراہے میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ جس کے بعد ٹریفک مزید ڈسپلن میں آگئی اور اگلے دس منٹ کے اندر اندر وہاں موجود ٹریفک کی لمبی لمبی لائنیں غائب ہوگئیں۔تھوڑی دیر بعد وہاں ٹریفک وارڈن نمودار ہو اور اس نے معمول کی ٹریفک کو کنٹرول کرنا شروع کردیا۔اس دوران میرےبالوں اور میری سفید اجلی شرٹ سے دھول چمٹ گئی تھی ۔پسینے سے میری حالت بری تھی ۔ لیکن میرے اندر جیسے کوئی نئی طاقت بھر رہی تھی ۔میرےاندر ایک نئی خود اعتمادی سر اٹھارہی تھی۔ کچھ کرسکنے کی احساس نے مجھے سرشار کردیا تھا۔اس چوک پر جب میں اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھ رہاتھا تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہم عام لوگ بگڑے کاموں کو سیدھاکرسکتے ہیں۔ ہماری تھوڑی سی کوشش بڑےسے بڑے بگاڑ کو درست کرسکتی ہے۔جب ہم کسی چیز کو درست کرنے پر تل جائیں تو پھر ہمارے لیے مدد بھی آنے لگتی ہے اور وہ لوگ جو ایسی صورت میں مدد کرنے کی خواہش رکھتےہیں ۔ ہمارے عمل سے تحریک پاکر میدان میں آجاتےہیں۔جب بیچ چوراہے میں ٹریفک ہمارے پاس سے گذر رہی تھی تو کئی لوگوں نے ہمیں سراہا۔ چلتی گاڑی سے انہوں نے ہمیں شاباش دی۔اس واقعے کا آپ لوگوں سے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم عام لوگ چیزوں کو تبدیل کرسکتےہیں۔ ہمیں کسی مسیحا یا نجات دہندہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ہم ہی اس دور کے مسیحا اور نجات دہند ہ ہیں۔ہم ہی اس زمانے کے امام ہیں۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو تبدیلی کادر وا کرسکتےہیں۔ اپنی طاقت پہچانیں اور اس سے کام لیں۔یقین مانیے کہ آپ کے اندر چھپی طاقت آپ کو حیران کردے گی۔