Saturday 15 February 2014

ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں

حفیظ درویش

ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں

سردی کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ یہ موسم بھی چند دنوں کامہمان ہے۔ شام کے وقت چلتی ہوائیں تیز ہیں ۔پہاڑوں سے اترتی یہ ہوائیں سرگوشیاں کررہی ہیں ۔ یہ ہوائیں ان دیکھے اور گذرے ہوئے زمانوں کے لفظ سماعتوں میں بھر رہی ہے۔ یہ ہوائیں کہ جن کےجسم پر کندہ ہیں ان زمانوں کے نشان جودرخشاں بھی تھے اور تاریک بھی تھے۔ یہ ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ ہم اس سے قبل بھی ایسے دیاروں سےگذر چکی ہیں جہاں ظلمت تھی، جہل تھا۔ جہاں اپنے چھوٹے سے مفاد کےلیے ایک انسان نے دوسرے کا گلہ کاٹا۔ پھر ایک گلے پر بس نہیں کی بلکہ اتنے گلے کاٹے کہ ذبح خانوں کی سرخ دیواریں سیاہ پڑ گئیں۔
عقوبت خانوں میں روش دماغوں کو ایسے بھیانک تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان میں کچھ لکھنے ،کہنے اورسننے کی سکت نہ رہی۔ لیکن ان کی آنکھوں میں جلتی امید کی لو کو کوئی نہ بجھا سکا۔ انہوں نے جوخواب دیکھے وہ درخشاں رہے۔ انہوں نےجو لفظ کہے وہ زندہ رہے۔انہوں نے جو سُر چھیڑے وہ ماحول میں گھلتے رہے۔ ان کےلفظوں ، گیتوں اور سروں نے نئے جہانوں کو بسایا۔ جیسے خزاں کے بعد بہار آتی ہے ۔ ایسے ہی ان کے لفظ تاریک زمانوں کے بعد پھوٹ پڑے۔نرم اور بتدریج تیز ہوتی روشنی دھیمے دھیمے تاریک گھروں کے آنگنوں ، دیواروں سے ہوتی ہوئی کمروں تک آئی۔ سیاہ پراسرار سائے چھٹنے لگے۔ پھو ل مہک اٹھے اور خوشی سے جھلملانے لگے۔ معصوم اور ننھے بچوں نے اپنے مرجھائے ہاتھوں سے ان پھولوں کو چننا شروع کیا۔ پژمردہ محبوباؤں نے یہ پھول اپنے سروں پر تاج بنا کر پہن لیے۔خوف و دہشت کی وجہ سے نیم جاں پڑے عاشقوں نے یہ پھول گریبانوں میں اڑس لیےاور عقوبت خانوں میں لکھے گئے گیتوں سے ان کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔ ان کےساتھ لگنے والے سُروں سے وہ رقص ترتیب پایا کہ چہروں پر فرط جذبات سے خوشی اور نور کا سیلاب امڈ آیا۔وہ سُر چھڑےکے رقص کرنے والے بے حال ہوکر ایک دوسر ے کو سہارنے لگے۔
 ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مذہبی جنونیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں رہا۔ مفاد پرستوں نے ہمیشہ خاک چاٹی۔ محافظوں کی چالبازیاں کبھی بارآور نہیں ہوئیں۔ ملاؤں کی موشگافیاں اور منطقیں کبھی فطرت کا راستہ نہیں روک سکیں۔ ہوائیں مجھے تھپک رہی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ خدا کے نام پر ظلم اگرچہ بہت بھیانک اور اذیت ناک ہے لیکن اس کا انجام ہونا ہے ۔ اس کا اختتام ہونا ہے۔ ہوائیں میرے شکوے کو سن رہی ہیں ۔ وہ میرے گلے لگ کر مجھے تھپک رہی ہیں۔
 ہوائیں مجھے پُرسہ دے رہی ہیں ان عاشقوں کا اور محبوباؤں کا جن کو زمین میں گاڑ کر سنگسار کردیا گیا۔ ہوائیں مجھ سے تعزیت کررہی ہیں ان لوگوں کی جو بے گنا ہ تھے لیکن ان کو لہو میں نہلا دیا گیا۔ جن کو دیواروں میں چنوا دیا گیا۔ جن کو عقوبت خانوں میں مروادیا گیا۔ہوائیں میرے ساتھ سینہ کوبی کررہی ہیں ان جوانوں کی موت پر جن کو جنگ میں دھکیل دیا گیا۔جن کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کس کی ہوس کا شکاربن  رہے ہیں۔ کس خدا کی قربان گاہ پر بطور بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں ۔ وہ کس دیوتا کو بچانے نکلے ہیں۔ یہ ہوائیں نوحہ پڑھ رہی ہیں ان کڑیل جوانوں کا جن کو ماؤں ، بہنوں ،بیویوں اور محبوباؤں سے جدا کر دیا گیا ۔محاذ جنگ پرجن کی پوٹلی میں محبوبہ کے اشکوں سے تر چندبوسے تھے،کچھ خشک پھول تھے،ماؤں کی طرف سے کہے گئے دعائیہ لفظ تھے۔بہنوں کے مغموم چہروں کی یاد تھی۔جن کی لاشوں سے میدان پٹ گئے اور ان کے چمکتے ، لشکتے بدن گِدھوں کے پیٹ کا رزق بنے جبکہ دور دیسوں میں انتظار کرتی آنکھیں راہ تک تک کے بے نور ہوگئیں ۔
 ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ اپنے حصے لفظ لکھو۔ اپنے حصے کے گیت لکھو۔ اپنے حصے کے سرچھیڑو۔ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ آنے والوں کےلیے امید لکھو ۔نئی صبح کی نوید لکھو۔



Wednesday 5 February 2014

کھلی ہوا میں چند سانسیں

۔۔کھلی ہوا میں چند سانسیں۔۔

میری کولیگ نےمیرے ہاتھ میں موجود چائے کے کپ کو دیکھا اور کہا" آپ نے چائے بنالی؟"
"کیا آپ نے بھی پینی تھی؟" میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جن میں ایک جھجھک اور معصومیت سی لرز رہی تھی۔
 
میری یہ کولیگ سخت گیر مذہبی خیالات کی مالک ہے۔صبح آکر میٹنگ کےدوران ایک رکوع قرآن کا ترجمہ کےساتھ پڑھتی ہے۔گاؤن اور عبایا پہنتی ہے۔
"وہ دراصل میں چاہتی تھی کہ اگر آپ چائے بنانے لگے ہیں تو الیکٹرک کیٹل میں پانی زیادہ ڈال دیتے۔ تاکہ میں بھی اپنی چائے بنالیتی  "

 اوہ آئی ایم رئیلی سوری، مجھے یاد نہیں رہا آپ سے پوچھنا۔ کیا میں جاکر کیٹل میں آپ کے حصے کا پانی ڈال دوں؟" میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔

"نہیں نہیں آپ زحمت نہ کریں"اس نے گھبرا کر جلدی سے کہا۔
اس کے لہجے میں ہاں ناں والی کیفیت تھی۔وہ چاہ رہی تھی کہ میں اس کےلیے چائے کا کپ بنادوں لیکن وہ یہ بات کہہ بھی نہیں پارہی تھی۔
 
"آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ چینی کتنی پیتی ہیں؟" میں نے طے کرلیا کہ اس کو چائے کا کپ بناکر دوں۔
"نہیں نہیں پلیز آپ رہنے دیں۔ میں خود بنالوں گی"اس کے لہجے میں موجود ہاں ناں کا تناسب بگڑنے لگا۔
"آپ کتنے چمچ دودھ اور چینی چائے میں ڈالتی ہیں" میں نے اس بار ذرا جمے ہوئے لہجے میں کہا۔
"ایک چمچ چینی اور دو چمچ دودھ" اس نے قدرے نروس ہوکر کہا۔

"آج موسم ذرا بے ایمان ہے اس لیے بنا کر دے رہاہوں" میں نے قدرے مسکرا کر اس کی گہری کالی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ جہاں اب اپنائیت کی ہلکی سی لو جل اٹھی تھی۔

میں نے جاکر الیکٹرک کیٹل میں دیکھا تو اس میں پانی موجود تھا۔کیٹل کو آن کرنے کے بعد میں نے کپ میں ٹی بیگ ڈالا اور اس کے بعد چینی ڈال دی اور اپنے کپ میں سے چائے کے سپ لینے لگا جو میں اپنے ساتھ کچن میں لےکر گیا تھا۔
چائے تیار کرکے جب میں واپس آیا تو وہ فون پر آفس کے کام کے حوالے سے کسی سے بات کررہی تھی۔ میں نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا۔ اس نے فون پر گفتگوکرتے تشکرانہ مسکراہٹ میری طرف اچھالی۔

میں واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میری کیبن کے پاس آئی اور مجھے سے کہا
"شکریہ اس نوازش کےلیے۔ آپ نے بہت اچھی چائے بنائی ہے۔"اس کے لہجے میں واقعتاً ایک ممنونیت تھی۔
"اٹس اوکے ڈئیر" میں نے مسکرا کہا۔

"ویسے خیال کیا کریں، دو چمچ دودھ پینے سے آپ کے وزن کے بڑھنے کا اندیشہ ہے اور میں نہیں چاہتا کہ آپ کا یہ خوبصورت سراپا  سیاپا بن جائے" میری اس بات پر وہ کھکھلا کر ہنس پڑی۔ جاندار مسکراہٹ اور میری شریر جملے نے اس کے چہرے پر رنگوں کی وہ رین بو پھیلائی کہ میں خود حیران رہ گیا۔

میں نے کبھی غور نہیں کیا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہے۔اس کی آنکھیں مسکراہٹ کی وجہ سے کاجل کوٹھا ہوگئیں
تھیں۔
"ویسے چائے کے ساتھ ساتھ آپ باتیں بھی بہت اچھی بنالیتے ہیں" اس نے سچ میں سراہتے ہوئے کہا اور اس وقت اس کے کسی بھی جملے یا چہرے کے تاثر سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایک مذہبی انسان ہے۔ اس وقت وہ صرف ایک انسان تھی۔ فطری جذبوں کے زیر اثر مہکتی ہوئی اور دمکتی ہوئی ایک انسان۔

"اگرآپ میری باتوں کے چکر میں آگئیں تو آپ کی چائے ٹھنڈی ہوجائے گی" میں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
"اوہ یاد آیا میں تو چائے اپنے کیبن میں ہی بھول آئی۔ بائے دی وے ایک بار پھر تھینک یو ایک مزیدار چائے کے لیے"اس نے ایک ادا کے ساتھ کہا اور اس کے بعد اپنے کیبن کی طرف چل پڑی ۔ جبکہ اس دوران مذہب کہیں کسی کونےمیں پڑا اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔


5 فروری


حفیظ درویش
 
۔۔پانچ فروری۔۔
 
وہ ایک پنتیس سالہ کشمیر ی تھا۔ جی ہاں ایک اصل کشمیری،جس کی آنکھوں میں اور چہرے پر اس وادی کے سرسبز جنگلوں اور خوبصورت نظاروں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے لیکن ا ن رنگوں پر اداسی کی ایک گردبھی بکھری ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پرآزادی کےلیے ایک لمبی جدوجہد کے نقوش موجود تھے۔ اسلام آباد میں فروری کے آغاز میں بادل برس پڑے تھے ۔ بارش ذرا دیر پہلے تھمی تھی لیکن اس کی خنکی ہوٹل کے اندر تک آرہی تھی۔اس کے ساتھ ٹیبل پر ایک چھبیس سالہ جوان بیٹھا ہوا تھا۔جس نےاپنی جیکٹ کی زپ بند کرتے ہوئے قدرے تاسف بھرے لہجے میں پوچھا۔" سنا ہے کہ دشمن کی افواج وہاں پر بڑا ظلم ڈھاتی ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ہی اپنا بھاپ اڑاتا چائے کا کپ اٹھا لیا۔

کشمیری جس پر یہ سردی سے کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہورہی تھی نے گہری نظروں سے جوان کودیکھا ۔ پھر تھوڑی دیر تک اپنے الفاظ کو ترتیب دی۔ شاید وہ بات کو مختصر لیکن موثر لفظوں میں بیان کرنے کےلیے یہ وقفہ کررہا تھا۔جبکہ اس دوران 
 سوال کرنے والے نے اپنا سگریٹ دوبارہ ایش ٹرے کے کنارے پر بنے ہولڈر میں سے نکال کر ایک گہرا کش لیا۔

"
بات یہ ہے" کشمیر ی نے یہ کہہ کر تھوڑا سا وقفہ کیا۔ پھر جلدی سے چائے کا ایک گھونٹ بھرا ۔ " اگرچہ بھارتی افواج نے وہاں ظلم کیا لیکن اس کے پیچھے پاکستان کےجہادیوں کا ہاتھ تھا۔ ان جہادیوں کا جن کو پاک فوج نے وہاں جہاد کےلیے بھیجا اور جن کو پاکستان کی تقریباً ہر حکومت نے سپورٹ کیا۔ ان مجاہدین کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا۔"
"
پرمجاہدین نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اوراپنی ہر آسائش کو تج کر آپ لوگوں کی مدد نہیں کی؟"جوان اس جواب کے لیے ہرگز تیار نہیں تھا اس نے جلدی سے بات کاٹ کردوسرا سوال داغ دیا۔
"
مجاہدین!"کشمیری نے کاٹ دار اور زہریلے لہجے میں کہا۔ اس کے لہجے میں اتنی کڑواہٹ تھی کہ وہ جوان کو اپنے چائے کے گھونٹ میں محسوس ہونے لگی۔
 
"
مجاہدین وہاں کونسا جہاد کررہے ہیں ؟ رات کو کسی عام کشمیر ی کے گھر گھس جانا، گھر والوں کو کہنا کہ ہم مجاہدین ہیں اور اسکے بعد ان سے کھانے کےلیے مانگنا۔ان کو کہنا کہ بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت بنا کر ہمیں دو۔ کیونکہ ہم نے اپنے ٹھکانے پر لےکرجانا ہے۔ گھر کے سارے پھل سمیٹ لینا۔ بر ف میں گھرے لوگوں سے وہ چیزیں چھین لینا جن پر ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے کیا یہ جہاد ہے آپ کی نظر میں ؟" کشمیر ی نے شعلہ بار نگاہوں نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
کشمیری کے اس سوال پر جوان ہڑبڑا سا گیا۔ اس کے اندر موجود ایک سچے پاکستانی ہونے کا تفاخر ہلکے ہلکے سے کانپنے لگا۔اس سے پہلے کہ وہ اس جھوٹے سچے تفاخر کو اور "کشمیر بنے گا پاکستان "کے نعرے کو کوئی مصنوعی تنفس دیتا۔ اس کشمیر ی نےجواب نہ آنے کے باوجود گفتگو کا سلسلہ دوبارہ جوڑ دیا۔
"
دوسری طرف بھارتی افواج کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ وہ پانچ روپے کا انڈہ سات روپےمیں خریدتے ہیں۔وہ ہم سے نہیں کہتے کہ ہم جہاد کررہے ہیں اورہمیں اپنے مال مویشی ذبح کرکے دو یا جو گوشت کے پارچے گھر میں پڑے ہیں وہ اٹھا کے دو  "
 
جوشیلے جوان کے اندر کا اعتماد اور کشمیر کے حوالے سے سارا جذبہ کافی حدتک ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ اس نے خود پر مصنوعی سنجیدگی اور تفکر طاری کرتے ہوئے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور اپنی طرف سے بہت ہی مہلک اور جاندار سوال پوچھا۔
"
کشمیر میں جو ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہید ہوئے اور جو عصمتیں لٹیں وہ سب کیا تھا؟"اس سوال کے لیے وہ کشمیری جیسے ذہنی طور پر پہلے سے ہی تیار تھا۔ ایک زہر میں بجھی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی۔ اس کے بعد اس نے چائے کا گھونٹ پیا تاکہ لہجے کی تلخی پر قابو پاسکے۔
 
"
نہ آپ لوگ جہاد کا جھنڈا لےکر ہماری زمین پر آتے اور نہ ہی ہم لوگوں کو اس عذاب سے گذرنا پڑتا۔ ہم تو چکی کے دوپاٹوں میں پسے۔ آپ کے مجاہدین کی تلاش میں آرمی نے ہمارے نوجوان مارے دوسری طرف مجاہدین نے بھی ہمارے جوان مارے اور وہ اس شک میں کہ یہ آرمی کےلیے کام کرتے ہیں۔ رہ گئی عصمتیں لٹنے کی بات تو جناب تصویر کا ایک رخ ہی آپ دکھایا گیا ہے۔کسی نے شاید آپ کو یہ نہیں بتایا کہ مجاہدین جب کسی کے گھر میں گھستے ہیں تو وہاں کے لوگ اپنی جوان لڑکیاں چھپا لیتے ہیں کہ کہیں مجاہدین ان کو مال غنیمت نہ سمجھ لیں۔ برف باری کے دنوں میں عموماً یوں ہوتا کہ وہ ہماری بیٹیوں ، بیویوں اور بہنوں کواس تہہ خانے میں لے جاتے ہیں جو شدید برف باری سے بچنے کےلیے بنایا گیا ہوتا ہےاور تقریباً ہرگھر میں موجود ہوتا ہے۔ہم مرد حضرات رات کو اوپر بیٹھ کر بے بسی اور لاچاری سے یہ جہاد دیکھتے رہتے ہیں اور پھر صبح اذانوں سے قبل وہ باقی ماندہ مال غنیمت لوٹ کر چلتے بنتے ہیں"کشمیر ی کے ان جملوں نے تو جیسے جوان کو اندر تک منجمد کردیا۔"تو کیا آپ لوگ آزادی نہیں چاہتے ؟" اس نے بلا سوچے سمجھے پوچھا
 
"
ہم آزادی چاہتے ہیں" کشمیر ی نے دوٹوک جواب دیا۔ اس جواب سے جوان کا منجمد وجود جیسے کسی نادیدہ حرارت کے زیر اثر پگھلنے لگا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔اس نے اشتیاق سے بھرے لہجے میں پوچھا۔
کشمیر ی ٹیبل پر جوان کی دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی قمیص اس کے رانوں پر پھیلی ہوئی تھی۔کوئی لمبا جواب دینے کی بجائے اس نے رانوں پر سے قمیص ہٹائی اور ٹانگوں کے درمیان کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا " ہمارا یہ آتا ہے پاکستان کے ساتھ"اور اس جواب سے جوان پر جیسے کوئی گلیئشر آن پڑا۔