Friday 17 October 2014

ہم ہی زمانے کے امام ہیں


حفیظ درویش
ہم ہی زمانے کے امام ہیں
آج صبح آفس آتے ہوئے راستے میں ایک چوک پر شدید ٹریفک جام تھا۔ اس چوراہے کہ سگنلز ایک لمبے عرصے سے بند پڑےہیں۔کبھی کبھار یہاں ٹریفک وارڈن نظر آجاتا ہے۔ لیکن آج ایک تو رش معمول سے زیادہ تھااور دوسرا وہاں کوئی وارڈن بھی نہیں تھا۔ لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ادھر اُدھر سے نکالنے کی کوشش کررہے تھے جس کی وجہ سے چوراہے پرایک بدترین ٹریفک جام تھا۔ ہر طرف کی سڑک پر گاڑیوں کی لمبی چوڑی قطاریں لگ گئی تھیں۔بمپر ٹو بمپر گاڑیوں کی وجہ سے بائیک نکالنے کی بھی کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ جبکہ چوراہے پر آپس میں پھنسی گاڑیوں کے ڈرائیوروں میں سے کوئی بھی اپنی گاڑی ایک انچ پیچھے لیجانے کو تیار نہیں تھا۔اس صورت حال کی وجہ سے لوگ لیٹ ہورہے تھے لیکن وہ کسی ترتیب کے ساتھ چوراہے سے گذرنے کی کوشش نہیں کررہے تھے۔ جبکہ ٹریفک میں جگہ جگہ سکول کی بسیں اور ویگنیں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ایک آدھ منٹ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد میں نے سوچا کہ یوں تو یہ لوگ اگلے ایک گھنٹے تک اس چوک پر سے نہیں نکل سکیں گے ۔جس کے بعد میں نے اپنی بائیک سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ کے بالکل قریب لگا کر کھڑی کردی اور گاڑیوں سے بچتا بچاتا بیچ چوراہے میں پہنچ گیا۔ جس کے بعد میں نے سب سے پہلے ان گاڑیوں کے ڈرائیووں سے ریکویسٹ کی جو بالکل چوراہے میں کھڑے سارے معاملات کو بگاڑ رہے تھے۔ان میں سے دوتین نے میری بات مان لی اور اپنی گاڑیاں تھوڑی تھوڑی پیچھے کرلیں جس کے بعد ایک گاڑی کے گذرنے کا رستہ بن گیا۔ جس کے بعد میں نے سب سےپہلے چوراہے کے درمیان کی گاڑیوں کو نکلنے میں مدد دی۔ لیکن جیسے ہی میں نے تھوڑی سی جگہ بنائی ہر طرف سےڈرائیوروں نے اس جگہ سے نکلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پھر ٹریفک جام ہوگیا۔ جس پر مجھے شدید غصہ آیا اور میں نے درمیان میں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھادیئے اور ان ڈرائیوروں کو طنزاً اشارہ کیا کہ آپ اب اپنی گاڑیاں نکال کر دکھائیں ۔اس دوران ایک اور صاحب بھی میری مدد کو آگئے تھے۔ جس کے بعد ہم دونوں نے مل کر چوراہا کلئیر کیا اور ایک طرف کی ٹریفک چلادی ۔پھر دوسری سائیڈ کی ٹریفک کو موقع دیا۔ایسے میں دوتین گاڑی والوں نے نکلنے کی کوشش کی ۔ باقی لوگوں نے تعاون کیا اور اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب گشت کرنے والی رینجرز کی گاڑی چوراہے سے تھوڑا آگے جاکر رکی اور اس میں سے رینجرز کے دو جوان چوراہے پر آگئے اور انہوں نے ان ڈرائیوروں کو اشارے سے پیچھے کرنا شروع کردیا جو اپنی گاڑی کو تھوڑا تھوڑا کھسکا کر بیچ چوراہے میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ جس کے بعد ٹریفک مزید ڈسپلن میں آگئی اور اگلے دس منٹ کے اندر اندر وہاں موجود ٹریفک کی لمبی لمبی لائنیں غائب ہوگئیں۔تھوڑی دیر بعد وہاں ٹریفک وارڈن نمودار ہو اور اس نے معمول کی ٹریفک کو کنٹرول کرنا شروع کردیا۔اس دوران میرےبالوں اور میری سفید اجلی شرٹ سے دھول چمٹ گئی تھی ۔پسینے سے میری حالت بری تھی ۔ لیکن میرے اندر جیسے کوئی نئی طاقت بھر رہی تھی ۔میرےاندر ایک نئی خود اعتمادی سر اٹھارہی تھی۔ کچھ کرسکنے کی احساس نے مجھے سرشار کردیا تھا۔اس چوک پر جب میں اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھ رہاتھا تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہم عام لوگ بگڑے کاموں کو سیدھاکرسکتے ہیں۔ ہماری تھوڑی سی کوشش بڑےسے بڑے بگاڑ کو درست کرسکتی ہے۔جب ہم کسی چیز کو درست کرنے پر تل جائیں تو پھر ہمارے لیے مدد بھی آنے لگتی ہے اور وہ لوگ جو ایسی صورت میں مدد کرنے کی خواہش رکھتےہیں ۔ ہمارے عمل سے تحریک پاکر میدان میں آجاتےہیں۔جب بیچ چوراہے میں ٹریفک ہمارے پاس سے گذر رہی تھی تو کئی لوگوں نے ہمیں سراہا۔ چلتی گاڑی سے انہوں نے ہمیں شاباش دی۔اس واقعے کا آپ لوگوں سے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم عام لوگ چیزوں کو تبدیل کرسکتےہیں۔ ہمیں کسی مسیحا یا نجات دہندہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ہم ہی اس دور کے مسیحا اور نجات دہند ہ ہیں۔ہم ہی اس زمانے کے امام ہیں۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو تبدیلی کادر وا کرسکتےہیں۔ اپنی طاقت پہچانیں اور اس سے کام لیں۔یقین مانیے کہ آپ کے اندر چھپی طاقت آپ کو حیران کردے گی۔


Monday 18 August 2014

اب یا پھر کبھی نہیں!!!


اب یا پھر کبھی نہیں!!!
عمران خان صاحب آپ ایک کرشماتی لیڈر اور انسا ن ہیں۔آج قدرت نے آپ کو اس جگہ پر کھڑا کردیا ہے جہاں سے آپ اس قوم کو ایک تابناک اور شاندار مستقبل کی طر ف لے کرجاسکتےہیں۔ قدرت نے آپ کو اس قوم کا کپتان بنادیا ہے اور آپ اس وقت ٹاس جیت کر گراونڈمیں کھڑے ہیں۔اب آپ نے فیصلہ کرنا ہےکہ قوم کو جتوانا ہے یا اس کو شکست کی بھول بھلیوں میں پہنچانا ہے۔تبدیلی کا بلا آپ کے ہاتھ میں ہے اورآپ اس سےملک میں موجود اڑسٹھ سال سے چلنے والی کرپٹ خاندانی سیاست کاراستہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے روک سکتےہیں اور ان بھیڑیوں کے جتھے کوتاریخ کے جنگل میں دھکیل سکتےہیں ۔
اس سب کچھ کےلیے آپ کو چند ایک مطالبات کرنے ہوں گےاور جس طرح کے حالات ہیں ایسے میں یہ ایک سو دس فیصد امکان ہے کہ آپ کے مطالبات مان لیے جائیں گے ۔
1) سب سے پہلے بائیومیڑک سسٹم کے الیکشن میں استعما ل کےلیےقانون پاس کیا جائے۔جس کی وجہ سے ووٹنگ ٹائم ختم ہونے کے پانچ منٹ کے اندر اندر پورے پاکستان کے حلقوں کا نتیجہ سامنے آجایا کرے گااور کوئی بندہ دھاندلی کا رونا نہیں روئے گا۔
2) ہر شناختی کارڈ رکھنے والے پاکستانی کےلیے ووٹ ڈالنا لازمی ہوگا اور نہ ڈالنے والا جرمانے یا قید کی سزا بھگتے گا۔
3) ان انتخابی اصلاحات کے بعدچھ ماہ کے اندر اندر بلدیاتی انتخابی بائیومیڑک سسٹم کےتحت کراکے اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔قوی امکان یہ ہے کہ آپکی کی جماعت ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی۔
4) آپ اپنے سارے جنون، سرمایہ دار دوستوں، ملکی اور غیر ملکی امداد کا رخ خیبر پختون خوا کی طرف موڑ دیں اور اس کواگلے پونے چار سالوں میں پاکستان کا سب سے خوشحال، پرامن، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ صوبہ بنا دیں۔
5) اور پھر پونےچار سال بعد ان اقدامات، اصلاحات اورکامیابیوں کو اپنے انتخابی مہم کےلیے استعمال کریں اور یقین مانیے کہ کوئی بھی آپ اس ملک میں حقیقی تبدیلی لانے سے نہیں روک سکے گااور نہ ہی آپ کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکے گا۔لیکن اگر آپ یہ سب نہ کرسکے تو یقین مانیے کہ نہ صرف آپ کی اٹھارہ سالہ جدوجہد خاک ہوجائے گی بلکہ یہ قوم بھی ہر آنے والےمسیحاسے مایوس ہوجائے گی ۔
۔۔۔ پھر یہاں کوئی نہیں ۔۔ کوئی نہیں آئے گا۔۔
حفیظ درویش

Friday 8 August 2014

یہ انداز مسلمانی ہے!!!



یہ انداز مسلمانی ہے!!!
میری ایک دوست امریکی ریاست شکاگو کے مضافات میں رہتی ہیں۔ ان کا نام نایاب ہے۔نایاب کاچند یورپی ممالک اور امریکہ میں آن لائن سٹورز ہیں۔یہ ایک خوش اخلاق،انتہائی تعلیم یافتہ، معاملہ فہم اور کاروباری معاملات میں  کافی مہارت کی حامل خاتون  ہیں۔انہوں نے مجھے ایک دلچسپ اور کافی حد تک افسوسناک کہانی سنائی ۔یہ اپنے گھر سے بیٹھ کرکمپیوٹر کے ذریعے اپناکام دیکھتی ہیں۔ نایاب کی ایک بہن لندن میں رہتی ہیں جو انہی کے کاروبار میں ان کی معاون اور شراکت دار ہیں۔ان کی بہن  یوکے اور ساتھ کے ممالک میں ان  کاروبار کو دیکھتی ہیں ۔ آڈر بک کرتی ہیں اور بعد میں سامان بھیجوادیتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی بہن نے لند ن میں اپنی مدد کےلیےایک ملازمہ بھی رکھی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یوں ہوا کہ  ملازمہ کام سے چلی گئی۔ کرسمس کی وجہ سے لمبے چوڑے آرڈر مل چکے تھے اور سامان کی بروقت ترسیل ان کےلیے مسئلہ بن گیا۔
نایاب کی بہن نے مسئلہ بتا کران  سے مدد چاہی۔ جس پر انہوں نے اپنی بہن کو ہدایت کی کہ کسی مسلمان لڑکی کو ملازم مت رکھنا۔کیونکہ یہ لوگ کام چور، سست اور بے ایمان ہوتے ہیں۔لیکن ان کی بہن نے مجبوری کی وجہ سے اس مشورے کو پس پشت ڈال دیا اورسامان  کی پیکنگ کےلیے ایک مسلمان لڑکی کوہائر کرلیا۔اس لڑکی کا تعلق اندرون لاہور سے تھا۔جو لندن میں کام کے سلسلے میں مقیم تھی ۔ یہ لڑکی پانچ وقت کی نمازی  تھی ۔ حجاب ہر وقت سر پر، انشااللہ ، ماشااللہ کی گردان  ،ساتھ کے ساتھ اسلامی  حکایات  کا طوفان۔اس لڑکی کواس کی خاکساری  ، تقویٰ اور پرہیز گاری کی وجہ سے  کام پر  رکھ لیا گیا اور اس نے دوسرے دن آکر کام شروع کردیا۔
سامان کی پیکنگ کےلیے نایاب کی بہن نے اپنے فلیٹ کے اندر ہی ایک کمرہ مختص کیا ہوا ہے۔اس دوران یوں ہوا کہ چھٹی آگئی ۔ نایاب کی بہن نے  اپنے شوہر کے ساتھ ایک  پارٹی میں  جانا تھا۔ سنڈے کو انہوں نے لائٹ سی جیولر ی پہنی اور جو بچ رہی اٹھا کر سامان کے پیکنگ کے ڈبوں میں ایک سائیڈ پر چھپا دی۔ تاکہ اگر کوئی چوری ہوئی تو یہ محفوظ رہے جب رات کو وہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس آئیں تو اپنی   جیولری وہاں سے اٹھانا بھول گئیں۔دوسرے دن وہ ملازمہ آئی ۔ اس نے سارا دن کام کیا اور شام کو چلتی بنی۔دوتین دن نایاب کی بہن کو یا دہی نہیں آیا کہ ان  کی جیولری سامان پیک کرنے والے کمرےمیں پڑی ہے۔ پھر ایک دن کسی تقریب میں جانےکا موقع آیا تو یاد آیا کہ جیولری کہا ں ہے۔یہ سوچ کر  پیکنگ والے کمر ے کی طرف بھاگیں۔ خیر انہوں نے جا کر دیکھا تو جیولر ی پڑی ہوئی تھی ۔ لیکن اس میں سے  دوجھمکے غائب تھے۔ جب انہوں نے یہ سب دیکھا تو اپنے شوہر کے ساتھ سارا واقعہ شیئر کیا۔
دونوں میاں بیوی کا ڈائریکٹ شک اسی لڑکی پر گیا۔ لیکن نایاب کےبہنوئی ایک ذہن آدمی ہیں۔ انہوں نے ملازمہ سے براہ راست تفتیش  اورباز پر س  کرنے کی بجائے دوسری راہ نکالی۔ انہوں نے سکیورٹی کیمرہ خریدا اور  خفیہ طریقے سے اسی کمرے میں  لگا دیا۔ کچھ دن بعد  مارکیٹ سے نقلی جیولری خرید کر ڈبوں میں چھپا دی اور اس لڑکی نگرانی کرنے لگے۔ایک دن  جمعہ کے روز وہ لڑکی اپنے معمول کے کام  میں مصروف تھی۔اس دوران اذان ہوئی    تواس نے نماز جمعہ ادا کی۔ کچھ تسبیحات کیں۔ اس کے بعد اپنا کام دوبارہ شروع کردیا۔نایاب کے بہنوئی اس دوران اس کی نگرانی میں مصروف تھے۔سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے  نقلی جیولری والا ڈبہ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے جیولری اٹھا کر دیکھی۔اس کے بعد اس کو دوبارہ واپس رکھ کر اپنےکام میں مصروف ہوگئی۔ پھر نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ ڈبہ  دوبارہ اٹھا کر اس کا جائزہ لینے لگی اور جب کوئی فیصلہ نہ کرپائی تو اسے واپس  اپنی جگہ پر واپس رکھ دیا۔ لیکن چھٹی سے تھوڑی دیر پہلے اس نے ڈبے میں  سے کچھ نکالا اور اپنی پینٹ کی جیب میں رکھ لیا۔
نایاب کے بہنوئی کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔ وہ فوراً اس لڑکی کے کمرے میں گئے اور اس کو بڑےتمیز سے کہا کہ بہنا جو سامان تم نے اٹھایا  ہے وہ مجھے واپس کردو۔ پہلے تو وہ لڑکی مکر گئی کہ اس  نے کوئی ساما ن نہیں اٹھایا۔ لیکن جب انہوں نے اس لڑکی کو کیمرے والی بات بتائی تو اس نے چپ چاپ اپنی جیب سے دوبندے نکال کر نایاب کے بہنوں کے حوالے کردیئےاور جب تھوڑی سی اور تفتیش کی تو مان گئی کہ پہلے  والے  دو جھمکے بھی اسی نے اٹھائے ہیں ۔ نایاب کے بہنوئی نے اس لڑکی کو ساتھ لیا اور اس کے فلیٹ پر جا کر وہ جھمکے بھی برآمد کرلیے۔وہ لڑکی بڑا روئی دھوئی اور منتیں کیں کہ اس کو پولیس کے حوالے نہ کیا اور نہ  ہی جاب  سے نکالا جائے۔ اس نے ہزار وعدے کیے اور قسمیں کھائیں کہ وہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گی۔لیکن نایاب کے بہنوئی نہ مانے۔ چونکہ یہ لوگ بڑے شریف  واقع ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے اس معاملے میں پولیس کوشامل نہیں کیا۔  یہ لوگ اس لڑکی کا مستقبل  خراب نہیں کرنا چاہتےتھےاور نہ ہی اس کی تذلیل کراناچاہتے ہے۔ اس لیے چپ سادھ لی اور اسے  ملازمت سے فارغ کرکے  معاملہ رفع دفع کردیا۔کہانی ختم۔دوستوں سے گذارش ہے کہ آئیں ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اورسوچیں کہ جس خداسے  ہم لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں خود اس سے کتناڈرتےہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے؟    اورساتھ کے ساتھ اس بات پر بھی تفکر کریں کہ جس مکمل ضابطہ حیات کےہم پرچارک ہیں کیا وجہ ہے کہ ہم اس پر خود عمل کرنے سے گریزاں ہیں ؟

Saturday 15 February 2014

ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں

حفیظ درویش

ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں

سردی کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ یہ موسم بھی چند دنوں کامہمان ہے۔ شام کے وقت چلتی ہوائیں تیز ہیں ۔پہاڑوں سے اترتی یہ ہوائیں سرگوشیاں کررہی ہیں ۔ یہ ہوائیں ان دیکھے اور گذرے ہوئے زمانوں کے لفظ سماعتوں میں بھر رہی ہے۔ یہ ہوائیں کہ جن کےجسم پر کندہ ہیں ان زمانوں کے نشان جودرخشاں بھی تھے اور تاریک بھی تھے۔ یہ ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ ہم اس سے قبل بھی ایسے دیاروں سےگذر چکی ہیں جہاں ظلمت تھی، جہل تھا۔ جہاں اپنے چھوٹے سے مفاد کےلیے ایک انسان نے دوسرے کا گلہ کاٹا۔ پھر ایک گلے پر بس نہیں کی بلکہ اتنے گلے کاٹے کہ ذبح خانوں کی سرخ دیواریں سیاہ پڑ گئیں۔
عقوبت خانوں میں روش دماغوں کو ایسے بھیانک تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان میں کچھ لکھنے ،کہنے اورسننے کی سکت نہ رہی۔ لیکن ان کی آنکھوں میں جلتی امید کی لو کو کوئی نہ بجھا سکا۔ انہوں نے جوخواب دیکھے وہ درخشاں رہے۔ انہوں نےجو لفظ کہے وہ زندہ رہے۔انہوں نے جو سُر چھیڑے وہ ماحول میں گھلتے رہے۔ ان کےلفظوں ، گیتوں اور سروں نے نئے جہانوں کو بسایا۔ جیسے خزاں کے بعد بہار آتی ہے ۔ ایسے ہی ان کے لفظ تاریک زمانوں کے بعد پھوٹ پڑے۔نرم اور بتدریج تیز ہوتی روشنی دھیمے دھیمے تاریک گھروں کے آنگنوں ، دیواروں سے ہوتی ہوئی کمروں تک آئی۔ سیاہ پراسرار سائے چھٹنے لگے۔ پھو ل مہک اٹھے اور خوشی سے جھلملانے لگے۔ معصوم اور ننھے بچوں نے اپنے مرجھائے ہاتھوں سے ان پھولوں کو چننا شروع کیا۔ پژمردہ محبوباؤں نے یہ پھول اپنے سروں پر تاج بنا کر پہن لیے۔خوف و دہشت کی وجہ سے نیم جاں پڑے عاشقوں نے یہ پھول گریبانوں میں اڑس لیےاور عقوبت خانوں میں لکھے گئے گیتوں سے ان کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔ ان کےساتھ لگنے والے سُروں سے وہ رقص ترتیب پایا کہ چہروں پر فرط جذبات سے خوشی اور نور کا سیلاب امڈ آیا۔وہ سُر چھڑےکے رقص کرنے والے بے حال ہوکر ایک دوسر ے کو سہارنے لگے۔
 ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مذہبی جنونیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں رہا۔ مفاد پرستوں نے ہمیشہ خاک چاٹی۔ محافظوں کی چالبازیاں کبھی بارآور نہیں ہوئیں۔ ملاؤں کی موشگافیاں اور منطقیں کبھی فطرت کا راستہ نہیں روک سکیں۔ ہوائیں مجھے تھپک رہی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ خدا کے نام پر ظلم اگرچہ بہت بھیانک اور اذیت ناک ہے لیکن اس کا انجام ہونا ہے ۔ اس کا اختتام ہونا ہے۔ ہوائیں میرے شکوے کو سن رہی ہیں ۔ وہ میرے گلے لگ کر مجھے تھپک رہی ہیں۔
 ہوائیں مجھے پُرسہ دے رہی ہیں ان عاشقوں کا اور محبوباؤں کا جن کو زمین میں گاڑ کر سنگسار کردیا گیا۔ ہوائیں مجھ سے تعزیت کررہی ہیں ان لوگوں کی جو بے گنا ہ تھے لیکن ان کو لہو میں نہلا دیا گیا۔ جن کو دیواروں میں چنوا دیا گیا۔ جن کو عقوبت خانوں میں مروادیا گیا۔ہوائیں میرے ساتھ سینہ کوبی کررہی ہیں ان جوانوں کی موت پر جن کو جنگ میں دھکیل دیا گیا۔جن کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کس کی ہوس کا شکاربن  رہے ہیں۔ کس خدا کی قربان گاہ پر بطور بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں ۔ وہ کس دیوتا کو بچانے نکلے ہیں۔ یہ ہوائیں نوحہ پڑھ رہی ہیں ان کڑیل جوانوں کا جن کو ماؤں ، بہنوں ،بیویوں اور محبوباؤں سے جدا کر دیا گیا ۔محاذ جنگ پرجن کی پوٹلی میں محبوبہ کے اشکوں سے تر چندبوسے تھے،کچھ خشک پھول تھے،ماؤں کی طرف سے کہے گئے دعائیہ لفظ تھے۔بہنوں کے مغموم چہروں کی یاد تھی۔جن کی لاشوں سے میدان پٹ گئے اور ان کے چمکتے ، لشکتے بدن گِدھوں کے پیٹ کا رزق بنے جبکہ دور دیسوں میں انتظار کرتی آنکھیں راہ تک تک کے بے نور ہوگئیں ۔
 ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ اپنے حصے لفظ لکھو۔ اپنے حصے کے گیت لکھو۔ اپنے حصے کے سرچھیڑو۔ہوائیں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ آنے والوں کےلیے امید لکھو ۔نئی صبح کی نوید لکھو۔



Wednesday 5 February 2014

کھلی ہوا میں چند سانسیں

۔۔کھلی ہوا میں چند سانسیں۔۔

میری کولیگ نےمیرے ہاتھ میں موجود چائے کے کپ کو دیکھا اور کہا" آپ نے چائے بنالی؟"
"کیا آپ نے بھی پینی تھی؟" میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جن میں ایک جھجھک اور معصومیت سی لرز رہی تھی۔
 
میری یہ کولیگ سخت گیر مذہبی خیالات کی مالک ہے۔صبح آکر میٹنگ کےدوران ایک رکوع قرآن کا ترجمہ کےساتھ پڑھتی ہے۔گاؤن اور عبایا پہنتی ہے۔
"وہ دراصل میں چاہتی تھی کہ اگر آپ چائے بنانے لگے ہیں تو الیکٹرک کیٹل میں پانی زیادہ ڈال دیتے۔ تاکہ میں بھی اپنی چائے بنالیتی  "

 اوہ آئی ایم رئیلی سوری، مجھے یاد نہیں رہا آپ سے پوچھنا۔ کیا میں جاکر کیٹل میں آپ کے حصے کا پانی ڈال دوں؟" میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔

"نہیں نہیں آپ زحمت نہ کریں"اس نے گھبرا کر جلدی سے کہا۔
اس کے لہجے میں ہاں ناں والی کیفیت تھی۔وہ چاہ رہی تھی کہ میں اس کےلیے چائے کا کپ بنادوں لیکن وہ یہ بات کہہ بھی نہیں پارہی تھی۔
 
"آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ چینی کتنی پیتی ہیں؟" میں نے طے کرلیا کہ اس کو چائے کا کپ بناکر دوں۔
"نہیں نہیں پلیز آپ رہنے دیں۔ میں خود بنالوں گی"اس کے لہجے میں موجود ہاں ناں کا تناسب بگڑنے لگا۔
"آپ کتنے چمچ دودھ اور چینی چائے میں ڈالتی ہیں" میں نے اس بار ذرا جمے ہوئے لہجے میں کہا۔
"ایک چمچ چینی اور دو چمچ دودھ" اس نے قدرے نروس ہوکر کہا۔

"آج موسم ذرا بے ایمان ہے اس لیے بنا کر دے رہاہوں" میں نے قدرے مسکرا کر اس کی گہری کالی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ جہاں اب اپنائیت کی ہلکی سی لو جل اٹھی تھی۔

میں نے جاکر الیکٹرک کیٹل میں دیکھا تو اس میں پانی موجود تھا۔کیٹل کو آن کرنے کے بعد میں نے کپ میں ٹی بیگ ڈالا اور اس کے بعد چینی ڈال دی اور اپنے کپ میں سے چائے کے سپ لینے لگا جو میں اپنے ساتھ کچن میں لےکر گیا تھا۔
چائے تیار کرکے جب میں واپس آیا تو وہ فون پر آفس کے کام کے حوالے سے کسی سے بات کررہی تھی۔ میں نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا۔ اس نے فون پر گفتگوکرتے تشکرانہ مسکراہٹ میری طرف اچھالی۔

میں واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میری کیبن کے پاس آئی اور مجھے سے کہا
"شکریہ اس نوازش کےلیے۔ آپ نے بہت اچھی چائے بنائی ہے۔"اس کے لہجے میں واقعتاً ایک ممنونیت تھی۔
"اٹس اوکے ڈئیر" میں نے مسکرا کہا۔

"ویسے خیال کیا کریں، دو چمچ دودھ پینے سے آپ کے وزن کے بڑھنے کا اندیشہ ہے اور میں نہیں چاہتا کہ آپ کا یہ خوبصورت سراپا  سیاپا بن جائے" میری اس بات پر وہ کھکھلا کر ہنس پڑی۔ جاندار مسکراہٹ اور میری شریر جملے نے اس کے چہرے پر رنگوں کی وہ رین بو پھیلائی کہ میں خود حیران رہ گیا۔

میں نے کبھی غور نہیں کیا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہے۔اس کی آنکھیں مسکراہٹ کی وجہ سے کاجل کوٹھا ہوگئیں
تھیں۔
"ویسے چائے کے ساتھ ساتھ آپ باتیں بھی بہت اچھی بنالیتے ہیں" اس نے سچ میں سراہتے ہوئے کہا اور اس وقت اس کے کسی بھی جملے یا چہرے کے تاثر سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایک مذہبی انسان ہے۔ اس وقت وہ صرف ایک انسان تھی۔ فطری جذبوں کے زیر اثر مہکتی ہوئی اور دمکتی ہوئی ایک انسان۔

"اگرآپ میری باتوں کے چکر میں آگئیں تو آپ کی چائے ٹھنڈی ہوجائے گی" میں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
"اوہ یاد آیا میں تو چائے اپنے کیبن میں ہی بھول آئی۔ بائے دی وے ایک بار پھر تھینک یو ایک مزیدار چائے کے لیے"اس نے ایک ادا کے ساتھ کہا اور اس کے بعد اپنے کیبن کی طرف چل پڑی ۔ جبکہ اس دوران مذہب کہیں کسی کونےمیں پڑا اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔