Saturday 16 July 2016

چند بکھری ہوئی نظمیں اور شعر

چند بکھری ہوئی نظمیں اور شعر اپنے بارے میں۔۔۔ اپنے بھی کون سے روابط ہیں حضرتِ جون سے روابط ہیں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مجد صابری کے نام۔۔۔۔۔ آج خاموش ہے وہ صدا جو ترنم سے لبریز تھی آج خاموش ہے ایک پسٹل تھا گرجا پھر اسی گرج سے آج خاموش ہے وہ صدا جو ترنم سے لبریز تھی اِس سنہری سی آواز کے قاتلو! یہ بتاؤ ہمیں گولیوں کی مدد سے یہ آواز مرکے فنا ہوگئی؟ سب کے کانوں سے کیا یہ جدا ہوگئی؟ قاتلو، جاہلو، بھیڑو، بزدلو، اب سنو! اور اس کو ذرا غور سے تم سنو یہ جو آواز ہے یہ تو مرتی نہیں یہ کسی کے بھی دل سے اترتی نہیں ترنم بھری یہ جو آواز تھی اس نے مرنا نہیں موت کے گھاٹ اِس نے اترنا نہیں حفیظ درویش ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک تازہ شعر۔۔۔۔۔ سبزمہکے ہوئے خوابوں سے بھرا گھر ہو میرا یہ تمنا ہے گلابوں سے بھرا گھر ہو میرا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ زمیں کا روگ ہیں ہم سب محبت چاہیے ہم کو محبت سے ہمیں نفرت یہ دہشت ہم اگاتے ہیں ہے دہشت سے ہمیں نفرت خیانت میں ہیں ہم اول خیانت سے ہمیں نفرت بغاوت ہے مزاجوں میں بغاوت سے ہمیں نفرت سراپا ہم عداوت ہیں عداوت سے ہمیں نفرت ہمیں نفرت سے رغبت ہے ہے نفرت سے ہمیں نفرت تمہیں میں کیا کہوں ہمدم کہ کیسے لوگ ہیں ہم سب سراپا سوگ ہیں ہم سب زمیں کا روگ ہیں ہم سب ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک شعر لہو کے گھونٹ نہ بھرتا تواور کیا کرتا میں تجھ سے عشق نہ کرتا تو اور کیا کرتا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ریل کا سٹیشن جواں ہے۔۔۔۔ شہر کا وہ ریل سٹیشن آج کتنے سال بعد اس کو دیکھاتو لگا آج بھی ویسے جواں ہے آج بھی موجود ہیں پانی کی ٹوٹی ٹینکیاں آہنی جنگلے وہیں ہیں وہ عمارت بھی ہے ویسی اور سلاخی کھڑکیاں بھی پرشکوہ ، مضبوط و قائم اپنے پہلے دن کے جیسی پتھر بھی ویسے ہیں پڑے پٹڑیاں ویسی کی ویسی دور تک جاتی ہوئیں دور کے دسیوں کے خواب آنکھ میں لاتی ہوئیں بچپن میں جب دیکھا تھا اس کو میں تو حیراں ہوگیا تھا اتنے سارےمنظروں میں میں پریشاں ہوگیا تھا شہر کا سٹیشن وہی ہے پلیٹ فارم بھی ہے ویسا میں کہ اب ویسا نہیں ہوں میں کہ اب بچہ نہیں ہوں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تمہارا نام سنتے ہی۔۔۔۔۔ سنو لڑکی! تمہیں اک بات کہنی ہے تمہارا نام سنتے ہی میری دھڑکن مچلتی ہے میری سانسیں مہکتی ہیں میری آنکھیں چمکتی ہیں تمہارا نام سنتےہی ہوائیں رقص کرتی ہیں میری پوریں تھرکتی ہیں تمہارا نام سنتے ہی میرا موسم بدلتا ہے کہ دل کا دیپ جلتا ہے تمہارا نام سنتے ہی میری ہرصبح ہوتی ہے میرا ہرروز ڈھلتا ہے تمہارا نام سنتے ہی ہوائیں گنگناتی ہیں کئی نغمے سناتی ہیں سنو لڑکی! تمہیں اک بات کہنی ہے تمہاری یہ سنہری مسکراہٹ میرا سارا اثاثہ ہے میرے دل کے ورق پر تو تمہارا نام لکھا ہے سنو لڑکی! میں یہ تسلیم کرتا ہوں تمہارے بن ادھورا ہوں کہ اک ٹوٹا ستارہ ہوں مگر یہ بات تو طے ہے کہ میں سارا تمہارا ہوں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک شعر۔۔۔۔ اپنے ہونے کا یقیں ہوتا ہے تو اگر پاس کہیں ہوتا ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ناسٹیلجیا۔۔۔۔۔ سردیوں کی آمد ہے شام سے ذرا پہلے جب شمالی رستوں سے سرد خو ہواؤں کے قافلے اترتے ہیں زاد ِرہ کی گٹھڑی میں کچھ پُرانی یادوں کی راکھ بھی یہ لاتے ہیں اور دل دکھاتے ہیں کچھ پرانی خوشبوئیں سانس میں بکھرتی ہیں کچھ بہار گیتوں کی دلگداز موسیقی دل میں گھلنے لگتی ہے بھولی بسری یادیں بھی ذہن میں اُبھرتی ہیں نہر کے کناروں کو چُھوتا سرد پانی بھی ہاتھ سے لپٹتا ہے شام سے ذرا پہلے دھندمیں اترتی ہیں دور پار کی پریاں شام سے ذرا پہلے دل پہ دکھ برستے ہیں ان خنک سے لمحوں میں سانس جل سا جاتا ہے شام سے ذرا پہلے من مچل سا جاتا ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دل پہ چوٹ پڑتی ہے۔۔۔ زندگی کے رستے پر جن سے آشنائی ہو ان کے روٹھ جانے سے دل پہ چوٹ پڑتی ہے۔۔ جن کو اپنا مانا ہو جن پہ سب لٹایا ہو جن کو روشنی دی ہو جن کو ہرخوشی دی ہو گر وہ آنکھ پھیریں تو دل پہ چوٹ پڑتی ہے جن کو خیر بخشا ہو جن کو سکھ میں پالا ہو جن کو چھت کی راحت سے دھوپ میں نوازا ہو گر وہ ناخلف نکلیں دل پہ چوٹ پڑتی ہے وقت کے بہاؤ میں سب ہی بہتے جاتے ہیں پر جو دل دکھاتے ہیں جو ہمیں مٹاتے ہیں دل سے وہ نہیں مٹتے یاد سے نہیں ہٹتے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دو شعر محبت رابطے سے بالاتر ہے محبت واسطے سے بالاتر ہے محبت کا سفربے حد انوکھا محبت راستے سے بالاتر ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ (ظالموں کے سامنے ڈٹ جانے والی نہتی صبین محمود کے نام ) یہاں کاجبر ٹوٹے گا۔۔۔۔ بھلے یہ جسم مرجائے مگر کب لفظ مرتےہیں بھلے یہ سانس چھن جائے مگر کب خواب چھنتے ہیں تیرا قاتل سمجھتا ہے کہ گولی کی مدد سے وہ زبان خاموش کردے گا ہمارے خواب مارے گا اسے لیکن خبر کب ہے کہ جب اک لفظ مرتا ہے ہزاروں اور جیتے ہیں کہ جب اک خواب مرتا ہے ہزاروں اور اگتے ہیں تمہارے خون سے لڑکی زمین کا رنگ بدلے گا بلاکا شور اٹھے گا درودیوار ظلمت کے زمین پر ڈھیر کردے گا اندھیرا زیر کردے گا یہاں کا جبر ٹوٹے گا یہاں پرنور پھوٹے گا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تم میں گردم ہے!!! میرے بچوں کو مارنے والو میرے بچوں کو چھیننے والو میری بہنوں کو رلانے والو میری ماؤں کو ستانے والو تم کو لگتا تھا کہ تم جیتو گے ننھے ننھےسے ان فرشتوں کو گولیاں مار کے سلادو گے گولیاں مارکے ڈرا دو گے ان کےاُجلی سی وردیاں تم نے خون سے رنگ کر جلاد دیں تھیں ان کے ڈیسکوں پہ خوں بکھیرا تھا ان کی سب کاپیاں اڑا دیں تھیں تم نے سوچا ہمیں ڈرا دو گے تم نے سوچا ہمیں رلادو گے اپنے بالوں کو نوچ لیں گے ہم تم نے سوچاتھا دل دکھا دو گے ہم نے مانا کہ ہم بہت روئے ہم نے مانا کہ ہم بہت چیخے ہم نے مانا کہ جگر میں چیر لگا ہم نے مانا کہ دل میں تیر لگا بزدلوتم کو کیا خبر تھی ہم غم کو طاقت بھی بناسکتے ہیں یہ جو آنسو ہیں اپنی آنکھوں میں ان کو جرات بھی بناسکتےہیں اپنے بچوں کی وردیاں ہم نے اپنے ماتھوں پر باندھ رکھی ہیں ان کے چھلنی سی ٹائیاں ہم نے اپنے ہاتھوں پہ باندھ رکھیں ہیں ان کی بستوں کی راکھ کو ہم نے اپنے چہروں پہ مل کے رکھا ہے قاتلو اب تمہاری باری ہے قاتلو ہم پہ خون طاری ہے ننھے بچوں کو مارنے والو اُن نہتوں کو مارنے والو بزدلو اب نکل کے بات کرو تم میں گر دم ہے ہم کو مات کرو ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہزہائی نیس کے نام۔۔۔۔۔ تم تو کہتے تھے روشنی خود کو کس لیے گھر میں اب اندھیرا ہے!! ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلے جنم موہے کنواری ہی رکھیو

اگلے جنم موہے کنواری ہی رکھیو حفیظ درویش جیکب آباد میں ایک سترہ سالہ لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ کنواری نہیں تھی۔ پاکستان میں عام آدمی کے لئے شاید یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن ایسے لوگوں پر جو اہل دل اور اہل علم ہے اوراس کے ساتھ ساتھ بہن بیٹی بھی رکھتے ہیں ان کے لئے یہ خبر فقط خبر نہیں بلکہ تیر ہے جو ان کے سینوں میں پیوست ہے۔ لڑکی کا نام خانزادی تھا۔ وہ اپنی زندگی کی بس سترہ بہاریں ہی دیکھ پائی تھی اور پھر اسے ایک شقی القلب خاوند مل گیا۔ تصور کیجے کہ اس معصوم لڑکی نے رسم مہندی، بارات، ولیمہ اور پھر سہاگ رات تک کے مرحلوں میں کیسے کیسے خواب اپنی آئندہ زندگی کے حوالے سے دیکھے ہوں گے۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے بھی یہ سوچ کر ہر کام بھاگ بھاگ کر کیا ہوگا کہ ا ن کی بیٹی اور بہن اپنی گھر کی ہوجائے گی۔ لیکن کسے خبر تھی کہ شادی کی دوسری صبح اس معصوم لڑکی کے لئے طلوع نہیں ہوگی۔ کسے خبر تھی کہ ایک ہنستی ، شرماتی ،لجاتی اور معصوم سی روح دوسرے دن کا سورج نہیں دیکھ سکے گی۔ یہ المیہ ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ٹھہریے کہ لفظ المیہ اس واقعہ کی وحشتناکی اور غم کو بیان کرنے کے لئے چھوٹا لفظ ہے۔ یہ واقعہ ماتم کے قابل ہے۔ ہائے اس معصوم لڑکی کے ہاتھوں میں گجرے تھے۔ عروسی جوڑا اس کے تن پر سجا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر سے کل کے دن میں لگایا گیا غازہ اب بھی تک اترا نہیں تھا۔ اس کے لبوں کی سرخی ابھی مدہم بھی نہیں پڑی تھی اور وہ سڑیچر پر مری پڑی تھی۔ دیکھیے، چشم تصور سے دیکھیے۔ ایک معصوم لڑکی کو دیکھیے اور اس کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو دیکھیے۔ آئیے کہ ہم ماتم کریں ۔ ان معصوم بچیوں کو کب تک ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟ شاید بہت دیر تک۔ کیونکہ اس ملک میں کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں۔ اسی سندھ میں جب سیکس ایجوکیشن پر بات ہوئی تو ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ سب ہماری روایات اور اقدار کے خلاف ہے۔ ہاں یہ سب ہماری روایت کے خلاف ہی تو ہے۔ کیونکہ ہماری روایات ہیں کہ زندہ درگور کردو ، کلہاڑیوں سے ٹکڑوں کرڈالو، منہ پر تیزاب پھینک دو، پھانسی پر لٹکا دو یا پھر جلا دو۔ ہاں مگر یہاں پر سیکس ایجوکیشن پر بات کرنا منع ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں بتاتی ہےکہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں۔ ان کو کس طریقے سے پورا کرنا ہے۔ ہمارے جسموں اور جنسی اعضاء کی ساخت میں کیا فرق ہے اور کیوں ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی لڑکی کے کنواری ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ آپ کے بیڈ کی چادروں کو سرخ کرے۔ لیکن یہ بات ہمارے اقدار کے خلاف ہے۔ ہاں یہاں پر مار دینے میں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ٹھیک ہے بھئی مارتے رہو۔ ڈراتے رہو، جلاتے رہو۔ ان رویوں سے لوگ ڈر تو جائیں گے ، منافقت تو کرنے لگیں گے لیکن سدھریں گے نہیں۔ ایسے میں اک دوست کی کچھ عرصہ پہلے آنے والی کال یاد آگئی ہےجو جذبات کی رو میں بہہ گئی تھی۔ اس نے ایسے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا کہ جو اسے ری ورجن کرسکتا ہو۔ کیونکہ چند دن بعد اس کی شادی تھی ۔راقم نے سوچا کہ اس لڑکی کو اس مرحلے سے گزرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی دوشیزگی کا ضامن پردہ کھیل کود میں بھی پھٹ سکتا ہے۔اور وہ اپنے پارٹنر کو یہ کہہ کر مطمئن کرسکتی تھی۔ لیکن وہ اس حوالے سے زیادہ ذہین تھی۔ شاید اسے اندازہ تھا کہ یہ معاشرہ کیسا ہے۔ اس نے آپریشن کرا لیا تھا۔ شکر ہے کہ وہ لڑکی آج اپنے گھر میں محفوظ و مامون ہے۔ اور وہ اپنے شوہر کی نظر میں پاک دامن بھی ہے اور پاک باز بھی ہے۔یہ ہے یہاں کا مرد اور یہ ہے وہ مسائل جو اس کی نام نہاد غیرت اور جہالت کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔ لیکن لوگ منافقت، جھوٹ اور دھوکہ دہی کو قبول کرنےکو تیار ہیں لیکن یہ عقل کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ یہ پاگل اور منافق معاشرہ ہے۔ اس کا مرض بڑھ رہا ہے۔ اور یہ علاج سے بھی سخت گریزاں ہے۔ رہنے دو اسے لاعلاج، اور انتظار کرو کہ یہ خود کو خود ہی مٹا ڈالے۔ پھر وقت اس معاشرے کی باقیات کو کوٹ کاٹ کر برابر کرے اور ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھے۔