Wednesday 18 September 2013

ہمارا معاشرہ اور عورت

ہمارا معاشرہ اور عورت:  حفیظ درویش 

عورت بھی کتنی بد قسمت واقع ہوئی ہے۔ اور اس بد قسمتی میں کافی عمل دخل اس کی خاموشی کو حاصل ہے۔ کیونکہ یہ بہت کم کسی ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔ معاشرہ بھی ایسی عورت کو سراہتا ہے جو خاموشی اور صبر کے ساتھ ظلم کو سہہ جاتی ہے۔ مرضی کے خلاف شادی ، جائیداد میں حصے یا تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ہو۔اس پر عورت کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آتی۔اس کی جو وجہ سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ پچھلے کئی ہزار سال سے عورت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ناقص العقل ہے۔اس کو دنیاوی معاملات کا کوئی ادراک نہیں۔۔ مرد عقل ِکُل ہے اور وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک عورت کےلیے کیا صیح اور کیا غلط ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس مستقل تلقین اور تضحیک نے عورت کی خود اعتمادی کی دھجیاں بکھیردی ہیں ۔۔ وہ خود کو مرد کا محتاج اور عقلی طور پر اُس سے خود کوکم ترسمجھنے لگ گئی ہے مرد نے صرف یہاں پر ہی بس نہیں کی۔بلکہ مذہب، غیرت، عزت اور ناموس کے نام پر اس کو اپنی باندی بنا لیا ۔ اس کےساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنے لگا ۔ جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔۔ جہاں کہیں عورت نے کوئی چون و چرا کرنے کی کوشش کی وہاں مرد نے اس کو دھونس اور طاقت سےدبایا۔۔یہ کتنی حیرت کی با ت ہےکہ دنیا کی کل آبادی کا اکیاون فیصد ہونے کے باوجود عورت یرغمال ہے۔۔ اکثریت میں ہونے کےباوجود اقلیت میں ہے۔۔مرد نے خود کوعورت کا پیدائشی حکمران سمجھ لیاہے۔۔ اور وہ آخری دم تک اس پر مسلط رہتاہے۔۔ اس کااستحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ مرد نے عورت کے بچے پیدا کرنے کے عمل کو نظر انداز کردیا ہے۔۔ وہ اسے بس ایک سیکس ٹوائے سمجھتا ہے۔۔ اوراس کے ساتھ ساتھ وہ یہ ایمان بھی رکھتا ہے کہ عورت شہوت کی ماری ہوئی ہے اور جیسے ہی اسے کوئی موقع ملے گا ۔۔وہ دیگر مردوں کی گود میں بیٹھ جائے گی۔۔ یہ ایک انتہائی شرمناک رویہ ہے کہ مرد اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کو ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس کو پردے میں رکھنے کےلیے ہر ممکن جتن کرتاہے۔۔ کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ یہ گھر سے باہر دوسرے مرد کی بانہوں میں سمانے کےلیے جاتی ہے۔۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سفر کے دوران، بازاروں اور دفاتر میں خواتین فون پر اپنے مردوں کو وضاحتیں دے رہی ہوتی ہیں کہ وہ اس وقت کہا ں ہیں۔۔ حالانکہ جب مرد گھر سے باہر نکلتاہے تو اس کےفون پر اس کے گھر کی خواتین کی کالز کا تانتا نہیں بندھتا۔۔۔۔ ایک مرد کو ہر وقت اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کے حوالے سے دھڑکا لگارہتاہے کہ وہ باہر گئی ہے اوروہ اس کی عزت، غیرت اور ناموس کو پامال کردے گی۔
جب کبھی ان خواتین یا لڑکیوں سے پوچھتاجاتا ہے کہ کیا یہ رویہ شرمناک نہیں تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ہمارے گھر والے ہم سے بہت پیار کرتے ہیں اس لیے ہماری خیر خبر رکھتے ہیں۔ جب سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ آپ جب پسند کی شادی کرنا چاہتی ہیں ، کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے جانا چاہتی ہیں یا جائیداد میں حصہ مانگتی ہیں تو اُس وقت آپ کے گھر والوں کا پیار گالیوں، لاتوں اور گھونسوں کی شکل کیوں اختیار کر جاتا ہے تو تب ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل پاتا۔اس معاشرے میں خواتین کا استحصال مختلف تصورات کے ذریعے کیا جارہا ہے۔
یونیورسٹی میں ہماری ایک کلاس فیلو تھی۔ اس کا بھائی خواتین کی فلاح و بہبود کےلیے ایک این جی او چلا رہا تھا۔ جس کا مقصد خواتین کو ان کےحقوق سے آگہی دیناتھا۔ اس کے علاوہ موصوف نے اپنی پسند کی منگنی کر رکھی تھی۔ جبکہ اپنی بہن کے حوالے سے اس کا رویہ انتہائی شرم ناک اور تذلیل آمیز تھا۔ ہماری کلاس فیلو اگر یونیورسٹی سے جاتے ہوئے لیٹ ہوجاتی تو اس کو کافی باتیں سننا پڑتیں۔ دو تین بار گھر دیرسے جانے اور بھائی کے سامنے بات کرنے پر مار بھی پڑی ۔اُن کے بھائی صاحب کے پاس مارنے کےلیے دلیل یہ تھی کہ میں تمہار ا بڑا بھائی ہوں اور تمہارا برا بھلا بہتر طورپر جانتا ہوں۔ یاد رہے کہ موصوف لندن میں دو سال کا عرصہ بھی گذار چکے تھے۔
 ہمارے معاشرے میں عورتوں کی اکثریت کو گھروں میں موجود فون اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر فون بج رہا ہے تو عورت کسی مرد کو آواز دے گی۔ چاہے وہ گھر کے کسی کونے میں ہو وہی آکر فون اٹھائے گا۔ اس کے علاوہ عورت کو دروازے پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ گھر پر کوئی مرد نہیں ہے تو کسی چھوٹے بچے کو دروازے پر بھیجا جاتاہے کہ وہ دیکھ کر آئے کہ باہر کون ہے۔اگر بد قسمتی سے کوئی لڑکی گھر کےدروازے کے پاس پائی جائے اور ایسے میں باپ یا بھائی گھر آجائے تو پھر اس کی خیر نہیں ہوتی۔ عورت اکیلی بازار نہیں جاسکتی۔ ٹیوشن پر جانا ہےتو بھائی یا باپ چھوڑ کر آئے گا۔ اگر بڑا بھائی نہیں تو ساتھ میں چار پانچ سال کا چھوٹا سابھائی جاتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ دو چار سال چھوٹا بھائی اپنی بہن پر حاوی ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنی دھونس جمانے سے باز نہیں آتا۔اگر ایسے میں کوئی لڑکی اکڑ جائے تو وہ نہ صر ف چٹیا کھینچ دیتا ہے بلکہ شام کو باپ کو بھی بتا دیتا ہے کہ یہ میرے ساتھ بحث کرتی ہے۔ باپ بھی اس معاملےمیں چپ کرجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ خود چاہتاہے کہ بیٹے کا پلڑا بھاری رہے اور اس کی بیٹی سرکشی نہ کرسکے۔
بیٹے اور بیٹی میں تفریق کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔اگر بیٹا پسند کی شادی کرتاہے تو یہ اس کا پیدائشی حق ہے۔ اگر بیٹی کرے تو خاندان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے، باپ کی ناک کٹ جاتی ہے ، بھائی کا سر شرم سے جھک جاتاہے۔اگر بیٹا کسی سے پیار کرتے ہوئے پایاجائے تو ماں باپ صدقے واری۔ بیٹی کا پتہ چلے تو چھریاں اور ڈنڈے چل جاتے ہیں۔بیٹا کسی ہوٹل سے ڈیٹ کرتے ہوا مل جائے تو ہلکی پھلکی سرزنش۔ لڑکی پکڑی جائے تو بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔بیٹا دوستوں کی پارٹی میں جائے تو رات کو دیر سے آنے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ لڑکی نے جانا ہوتو شام سات بجے سے پہلے واپس آنے کی تاکید سوبار کی جاتی ہے۔اگر تھوڑی لیٹ ہوجائے تو موبائل لگاتار بجنے لگتاہے یا پھر باپ یا بھائی گاڑی لے کر پہنچ جاتاہے۔بیٹے کو یونیورسٹی بھیجا جاتا ہے تو کوئی نصیحت نہیں۔ بیٹی کو بھیجا جائے تو ماں پاوَں میں دوپٹے رکھتی ہے کہ ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ باپ الگ سے بلا کر سمجھا کر رہا ہوتاہے کہ بیٹا اپنی پگڑی تمہارے حوالے کر رہاہوں اب اسکی حفاظت کرنا تمہار ا کام ہے۔ بھائی جو چند لمحے پہلے باہر بازار میں کسی کی ماں بہن کو چھیڑ کر آرہا ہوتا ہے، گلوگیر لہجے میں کہتاہے بہن ہمارا سر نہ جھکا دینا۔
یہ منتیں ، ترلے اور واسطے اس وقت بھی دیے جاتے ہیں جب بیچاری عورت جاب کےلیے نکلتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ روا رکھے گئے اس تیسرے درجے کے رویے کو دو طریقوں سے ختم کیا جاسکتاہے۔ سب سے پہلے تو انفرادی سطح پر ہمیں اس کو انسان سمجھنا ہوگا۔ عورت کی اور مرد کی فطری ضرورتوں کو ایک سا خیا ل کرنا ہوگا۔ عورت کے حوالے سے جو تعصب اور بُغض مذہب، خاندان اور ہمارے معاشرے نے ہمارے ذہنوں میں انڈیلا ہے اس سے جان چھڑانی ہوگی۔انسان کے اندر خود کو اور اپنے خیالا ت کو بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بس منطقی اور انسانی بنیادوں پر ہمیں اپنی سوچ پروان چڑھانےکی ضرورت ہے۔تبدیلی کی مخالفت کی بجائے اُسے کُھلے دل سے خوش آمدید کہنے کی روش اپنانا ہوگی۔ عورت کو اپنے شانہ بشانہ لانے میں اس کی مدد کرنا ہوگی۔ ہم نے اس کا بے تحاشا استحصال کیا ہے اور ہمیں ہی اس کا مداوا کرناہے۔
 دوسری طرف حکومت ان کو مضبوط کرنے کےلیے قوانین پاس کرے۔ حکومت کا کردار اس حوالے اہم ہے کیونکہ اس کے پاس کام کرنے کی صلاحیت اور وسائل دونوں موجود ہوتے ہیں۔قوانین کو ہر کسی پر بلا تفریق نافذ کیا جائے اور جو نہ مانے اس سے زبر دستی منوایا جائے۔خواتین کو پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ اور موثر نمائندگی دی جائے تاکہ وہ خواتین کےلیے قانون سازی کرسکیں۔ مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائےا ور امتیازی اور غیر منطقی مذہبی قوانین مثلاً مرد کے مقابلے میں آدھی گواہی، جائیداد میں آدھا حصہ، ریپ کی صور ت میں چار مسلمان گواہوں کی شرط وغیرہ۔ان کو فوراً ختم کیا جائے تا کہ عورت کو بطور انسان اس کی شناخت دوبارہ لوٹائی جاسکے۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish

No comments:

Post a Comment