Saturday 21 September 2013

غیرت بریگیڈ

حفیظ درویش:
غیرت بریگیڈ
پاکستان میں جو چیز بڑی وافر مقدار میں دستیاب ہے اس کا نام غیرت ہے۔ یہ ہر کس وناکس کےپاس ٹنوں کے حساب سے موجود ہے۔جیب میں پانچ روپے کے نوٹ کی آمد شاذ شاذ ہی ہوتی ہوگی لیکن غیرت سے ان کے خزانے  قارون کی تجوریوں کی  طرح  لبا لب بھرے ہوں گے۔اتنی کثیر تعداد میں غیرت کی موجود گی نے ایک خاص طبقے  کو جنم دیا ہے۔ یہ طبقہ غیرت بریگیڈ کہلاتا ہے۔ اس طبقے کا اوڑھنا ، بچھونا، نہانا دھونا، کھانا پینا اور پڑھنا لکھنا غیرت ہے۔غیرت ان کے انگ انگ میں  ایسے بھری ہوتی ہے جیسے کسی اسٹیج کی ڈانسر کے بدن میں  بجلی بھری ہوتی ہے۔ اکثر اوقات یہ غیرت کے جراثیم آپ کے اندر بھی انڈیلنے کی کوشش  بھی کرتے ہیں۔بے تحاشا غیرت کے مریضوں کی علامت یہ ہے کہ   غیرت بعض  اوقات انکے منہ سے جھاگ کی صورت میں بہتی ہوئی نظر آتی  ہے۔

غیربریگیڈ کے جانثاروں کی چند ایک نشانیاں

ان مجاہدوں کا پہلا ہد ف ہمسایہ  ملک انڈیا ہے۔ جتنی نفرت ان کے دلوں میں انڈیا میں بسنے والے سواا رب لوگوں کےلیے ہے شاید ہی کسی اور کےلیے ہو۔حالانکہ  وہاں تیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان بھی آباد ہیں۔جو ان    کےہم مذہب اور کافی حد تک ہم زبان بھی  ہیں۔ہندو کلچر سے  نفرت ان کی رگوں میں لاوا بن کے بہتی رہتی  ۔یہ اس وقت بھول جاتے ہیں کہ جس مسلم  تہذیب اور کلچر پر فخر کرتے ہوئے ان کا سینہ پھول کر تنبو ہوجاتا ہے وہ  712ء میں یہاں دو ایک علاقوں میں بزور شمشمیر پھیلایا گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہاں موجود  دریائے  سندھ ، موہنجو داڑو، دریائے گنگا  اور جمنا کی تہذیب پانچ ہزار سال سے پرانی ہے۔ یہ وہ تہذیب ہے جس نے لوگوں کو پختہ گھروں، صاف ستھری گلیاں اور آج سے پانچ ہزار قبل پانی کی نکاسی کےلیے پکی نالیاں بنانے کا طریقہ سکھایا۔مندوروں کی گھنٹیاں ، اس کے درو دیوار کے نقش  و نگار اور ان میں موجود مورتیاں جو آرٹ کا شہکار تھیں انہوں علاقوں کے ہنرمندوں کی محنت اور جمالیاتی حس کا نتیجہ تھیں۔برصغیر کے ان علاقوں میں تہذیب نے آنکھ کھولی اور ہمارے آباو اجداد نے اس کو بام عروج پر پہنچایا اور دنیا نے برصغیر کی تہذیب  سے عمارت سازی، مجسمہ سازی، لکھت پڑھت، شاعری ،  تصوف ،روحانیت اوررقص وموسیقی کے میدانوں میں  فیض حاصل کیا۔

غیرت بریگیڈ کا مطالعہ

غیرت بریگیڈ کے  غازیوں کا مطالعہ انتہائی سطحی ہوتا ہے۔انہوں نے مطالعہ کم اور منہ کالا زیادہ کیا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے دوچار اشعار، سستی مذہبی جذباتیت پر مبنی نسیم حجازی کے دوچار ناول، اور یا اور انصار عباسی کے چار کالم ان بقراطوں کا کل اثانہ ہوتے ہیں۔محمود غزنوی کا انڈیا پر حملہ اور محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے سن کو یہ مکمل تاریخ سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو اس بات کا اندازہ تک نہیں کہ عرب کے لق دق صحراوں میں آنکھ کھولنے والے مسلم کلچر کی عمر ابھی جمعہ جمعہ چار دن نہیں ۔ ابھی خود یہ کلچر ارتقا کے اس مرحلے سے گذر رہا ہے جس سے برصغیر کا کلچر آج سے پانچ ہزار سال پہلےنہ  صرف واقف تھا بلکہ چار قدم آگے بڑھ چکا تھا۔معاشرت، انسانی جذبات کا احترام، خواتین کےلیے تحفظ اور برابری کے حقوق ،  امن وامان ، بھائی چارہ  اور برداشت یہ وہ باتیں ہیں جو برصغیر کے کلچر میں آج سے پانچ ہزار سال پہلے موجود تھیں۔  مسلم کلچر کا تاحال  دعوی ہے  کہ  اس نے عورتوں کو حقوق دیئے ہیں۔ برصغیر کے کلچر سے ثابت ہے کہ یہاں کے لوگوں  نے عورت کو دیوی بنا کر پوجا۔ اس سے محبت کی ۔ اس کو احترام دیا۔

غیرت بریگیڈ کا مطالعہ اتنہائی سطحی ہونےکے ساتھ ساتھ ناقص مواد  پر مشتمل ہے۔ میڑک کی جھوٹی سچی مطالعہ پاکستان اور  اسلامیات  میں بمشکل پاس ہونے والے اس بریگیڈ کے غازیوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے یہ عقل کل ہوں۔سائنس ،تاریخ، فلسفہ،ادب، مذہب، تہذیب و تمدن  اور آرٹ پرعالمانہ گفتگو  کو یہ اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی کا کام سمجھتے ہیں۔
 چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم  سارا  جہاں  ہمارا
یہ وہ نعرہ ہے جس نے اس ٹولے کا دماغی توازن خراب کررکھاہے۔حالانکہ زمین حقائق کچھ یوں ہے کہ انڈیا ہر میدان میں ترقی کرتا ملک ہے،کمپیوٹرزسافٹ وئیر انڈسٹری پر اس کی  اجارہ داری ہے۔ چین دنیا کی منڈیوں میں اعلی معیار کی مصنوعات  اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں سب سے آگے ہے۔ سارے  جہاں کے دیگر ملکوں میں امریکہ ، برطانیہ ، کینڈا، فرانس ، جرمنی، روس، سوئٹرزلینڈ، سنگاپور اور جاپان جیسے ترقی کی معراج پر پہنچے ہوئے  معاشی دیو بھی ہیں۔جہاں فلک شگاف عمارتیں ،عقل کو حیران کردینے والے کارنامے۔ خوش خرم عوام  اور علم و فن کی  چکا چوند   آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔

جی بریگیڈ کے جذبے

 یہ تو ہوگی ان کی ممالک کی مادی خوشخالی کا عالم۔ اگر حرب وضرب کے  میدان میں ان کا جائزہ لیا جائے تو جدید ترین ہتھیار جن کا مسلم دنیا کے کسی ملک میں تصور تک نہیں ان کے پاس موجود ہیں۔جن  میں سے متروک ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیار مسلم دنیا کے ممالک خرید کر آپے سے باہر ہورہے ہوتے ہیں۔ سپرسونک طیارے، ایٹمی وار ہیڈز کی ہزاروں کی تعداد میں کھیپ، ایٹمی آبدوزیں، عظیم الشان بحری بیڑے اور ان پر کھڑے سینکڑوں جنگی جہازون کی لائنیں،بین البراعظیمی مار کرنے والے میزائل اور بغیر پائیلٹ کے چلنے والے فائٹر جیٹ اور ڈرون  ،اگر یہ ترقی یافتہ ممالک  چاہیں تو کسی بھی مسلم  ملک کو ایک ہفتے میں ملبے کا ڈھیر بنا دیں۔

خیر بات ہورہی تھی کہ  غیرت مارکہ کی انڈیا سے نفرت کی۔ان جیالوں کےدل میں ہر وقت دہلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور وہاں کے ریڈیو  اسٹیشن سے " یہ ریڈیو پاکستان دہلی  ہے" سننے   کی  خواہش مچلتی رہتی ہے۔

جی بریگیڈ کے افلاطونوں کی شخیصت میں تضادات 

انڈیا  کے بعد دوسرا ملک امریکہ ہے جس  کی تباہی و بربادی کی پریکٹس یہ اپنے بازار اور اسٹورز جلا کر کرتے ہیں۔مرگ بر امریکہ کے نعرے لگاتے ہیں اور جب بھوک اور پیاس  لگتی ہے تو کوک برگر سے معدے بھر نے  کے بعد منہ بھر بھر کے گالیاں امریکہ کو دیتے ہیں۔جینز، پینٹ شرٹ،جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی آلات کے استعمال پر نازاں ہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ کے ساتھ بقراط بن کر اس نظام کی تباہی اور طرز معاشرت کے خلاف امریکن  ایکسنٹ  میں زہر  اگل رہے ہوتے ہیں۔ اعلی تعلیم کےلیے امریکہ کے ویز ے کےلیے ایمبیسیوں کے سامنے دنوں تک خوار ہونے میں ان کی غیرت  کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ سیلاب کے دنوں میں امریکی امداد، تعلیم ، صحت و صفائی اور دفاعی مدد لیتے ہوئے غیرت بریگیڈ کی حمیت کسی کونے میں محو استراحت ہوتی ہے لیکن جیسے ہی امریکہ کسی شر پسند کو مارنے کےلیے ڈرون اٹیک کرتا ہے یار لوگ اپنی ہی گلی کوچوں کو میدان جنگ بنادیتے ہیں۔ اورامریکہ سے درآمد شدہ  کمپیوٹرز پر بیٹھ کر فیس بکی غیرت مندغیرت ڈرون  آپریٹ کرنے لگتے ہیں۔

جی بریگیڈ کے شر سے بچنے کے چند ایک نسخے

ان کےسامنے انڈیا کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ جیسے کسی فائٹربُل کو سرخ جھنڈی سے چڑ ہوتی ہے ایسے ہی ان کو انڈیا سے ہے۔ ان پر کسی قسم کا اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ انتہائی نفسیاتی مریضوں کےلیے ڈاکٹرز بھی یہی تجویزکہ ان سے اختلاف رائے نہ رکھا جائے کیونکہ وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا سکیں تو خود کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ ان لوگوں کو انڈین فلمیں اور گانے  سننے پر کسی قسم کی تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے اور نہ  ہی جدید دنیا سے درآمد شدہ ،ان کی زیر استعمال اشیاء  پر کوئی   اعتراض کیا جائے۔کوئی غیر جانبدار تاریخی کتاب کو ایسے ہی ان کی پہنچ سے دور رکھا جائے جس طرح دوائیوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے۔اگر یہ گندہ  لولی پاپ چوسنے پر بضد ہوں تو ان کو کہیں کہ ہور چوپو۔ہاں اس دوران اس بات کی کڑی نگرانی کریں کہ آپ کا کوئی بھائی  یا رشتہ دار  نوجوان ان کی سنگت میں نہ بیٹھ پائے۔  جو نوجوان تاحال دماغ سے سوچتے ہیں  ان  کو غیرت بریگیڈ سے ایسے ہی دور رکھیں جیسے مولویوں سے سوہنے بچوں کو دور رکھا جاتا ہے۔ وماعلیناالبلاغ۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish


No comments:

Post a Comment