Tuesday 17 September 2013

جرگہ ، روایات اورعورت

جرگہ،روایات اور عورت 
                                                                                                                                               حفیظ درویش 
میری سوموار کی صبح کا آغاز انتہائی برا ہوا۔ جب میں اپنے نیوز چینل کے آفس پہنچا تو ٹی وی سکرین پر تین خواتین کے قتل کے ٹیکر ز چل رہے تھے۔ یہ خواتین کوہاٹ کے علاقےایف آر مواکی کی رہائشی تھیں ۔ ان خواتین میں سے سے ایک کا جرم یہ تھا کہ اس نے دوسری شادی کی۔اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے شادی شدہ ہونےکے باوجود دوسرا نکاح کیا۔ اس خاتون کا فیصلہ ایک مقامی جرگے نے کیا۔ جس کے بعد اس خاتون کو قتل کردیا گیا۔اس کے علاوہ جرگے نے اس خاتون کا ساتھ دینے والی دو خواتین کو قتل کرنے کا فیصلہ بھی صاد کیا ۔ذرائع کے مطابق اس خاتون کی شادی دو سال قبل ہوئی جس کے بعد یہ کراچی اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی ۔ وہاں سے یہ مبینہ طور پر ایک شخص کے ساتھ گھر چھوڑ کر سوات چلی آئی۔ جس کے بعد اس کے اغواء کا مقدمہ کراچی میں درج ہوا اور سوات پولیس نے خاتون کو بازیاب کرا کر ورثاء کے حوالے کردیا ۔ جس کے بعد مقامی جرگے کے فیصلے کے بعد دو خواتین کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اس خبر کے بعد کئی سوالوں کے اژدھے منہ کھولے میرے سامنے کھڑے تھے ۔ سب سے پہلا سوال جو میرے ذہن میں آیا کہ ایک جیتے جاگتے اور باہوش انسان کی جان لینے کا اختیار آخر کس نے اس جرگے کو دیا ۔اس جرگے کی قانونی حیثیت کیا تھی ؟ اس کے تحت ہونے والا فیصلہ کس قدر منصفانہ اور انسانی تھی؟ کیا یہ فیصلہ سنانے والے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ تھے؟ اگر یہ فیصلہ کچھ ان پڑھ لوگوں نے اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے سنایا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان کی روایات مروجہ عالمی اخلاقیات اور قوانین کے پیمانے پر پورا اترتی ہیں؟اگر اس کا باعث شرعی حدود تھیں تو کیا تفتیش ،سماعت اور سزا دینے کے تمام مراحل ریاست کے اداروں کی بجائے افراد اور گروہ اپنی صوابدید پر کریں گے؟
انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا خام خیالی معلوم ہوتا ہے جب اس دور میں لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگائی جاتی ہے، انہیں اس بات پر قتل کردیا جاتا ہے کہ ان کی تصویر کسی اورکے موبائل پر کیوں پائی گئی۔
یہ واقعہ مروجہ انسانی حقوق اور ریاست کے نظام عدل وانصاف کے تحت سزاوجزا دینے کے جمہوری اور آئینی ریاستی اختیار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کچھ عرصہ قبل عام انتخابات کے موقع پر اپر دیر اور لوئر دیر میں خواتین کے ووٹ ڈالنےپر پابندی عائد کی گئی۔ اس فیصلے میں حکومت کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں کے لوگ بھی شامل تھے۔انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا خام خیالی معلوم ہوتا ہے جب اس دور میں لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگائی جاتی ہے، انہیں اس بات پر قتل کردیا جاتا ہے کہ ان کی تصویر کسی اورکے موبائل پر کیوں پائی گئی۔ حالانکہ ان بیچاریوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی نے ان کی تصویر یا ویڈیو بنا لی ہے۔بارش میں نہانے یا رقص کرنے پر گولیوں سے بھون کر رکھ دینا، بازارو ں میں جانے پر پابندی عائد کرنا اور موبائل رکھنے پر سنگسار کردینا یہ وہ چند ایک گھناونے جرائم ہیں جو بڑے تواتر کے ساتھ خیبر پختون خوا میں ہورہے ہیں ۔ان وحشیانہ جرائم کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ان سارے انسانیت سوز اور خواتین کے خلاف جرائم کےلیے بنیاد علاقائی رسوم یا مذہبی احکامات کو بنایا جاتا ہے۔
ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس طرح کےواقعے کے پیچھے چھپی درندگی کو مزید کتنی دیر اورکتنی لاشوں کے گرنے تک برداشت کرنا ہے۔میرے کچھ دوست انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور میڈیا کی فیلڈ میں اچھے عہدوں پر کام کررہے ہیں۔جب ڈیر ہ اسماعیل خان میں دو بچوں کی ماں کو جرگے کے فیصلے پر فقط اس لیے سنگسار کردیا گیا کہ اس کے پاس موبائل موجودتھا۔پتھروں سے قتل کر نے کے بعد اس کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھی گئی اور اس کو علاقے کے قبرستان سے دور ایک ویرانے میں گڑھا کھود کر دبا دیا گیا، تو میں نےاس واقعے پر اپنے ایک بہت باخبر دوست سے بات کی تو وہ سرے سے اس کے وجود کو ماننے کو تیا ر نہیں تھا۔ جب اخبارات اور نیوز چینلز نے خبر کی تصدیق کردی تو جناب نے اس گھناونے جرم کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ ان کی پشتون روایات کے خلاف بات تھی۔ یہ بات سن کر میں شدید صدمےمیں چلا گیا کہ کتنی آسانی کے ساتھ ہم سب نے ایک بدترین انسانیت سوز واقعے کو روایات کے قالین کے نیچے چھپا دیا ہے۔ایک دوسرے واقعہ جس میں کوہستان میں ایک شادی کے موقع پر لڑکوں کے ساتھ ڈانس کرنے پر مبینہ طور پر تین لوگ مارے گئے اور پانچ خواتین زخمی ہوئیں۔ جب میں نے اس واقعے پر اپنے ایک پشتون کولیگ سے بات کی تو اس نے اس کو روایات کا شاخسانہ قرار دیا اور جب میں نے ان سے کہا کہ ان جیسے پڑھے لکھے اس ظلم و انصافی کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ وہاں رسموں اور روایات کے خلاف جانا ان کے بس کی بات نہیں۔
اگر پڑھے لکھے خامو ش رہے، سول سوسائٹی سوتی رہی، باضمیر مرتے رہےاورگورنمنٹ شدت پسندوں کی شرائط تسلیم کرتی رہی تواس دھرتی پر تخلیقِ آدم کا بوجھ اٹھانے والی عورت جہالت ، ظلم اور بربریت کے دشت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائے گی اور اچھے دنوں کے خواب دیکھنے کےلیے آنکھیں تو کیا کسی کا وجود ہی نہیں رہے گا۔
جس معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہی اس قسم کے جرائم پر خاموش ہو وہاں کسی تبدیلی کی امید کرنا کسی معجزے کا انتظار کرنا ہے۔جہاں پڑھا لکھا طبقہ خاموش تماشائی ہو ، سول سوسائٹی مفلوج جسم کی طرح کسی کونے میں پڑی ہو، ظلم پر خاموش نہ رہنے والوں کے ساتھ بندوق کی زبان میں بات کی جاتی ہو، باضمیرکونے کھدروں میں منہ چھپاتے پھر رہے ہوں، گورنمنٹ اسلامی قوانین کےنفاذ کےلیے اپنے وسائل خرچ کررہی ہو ، ایسے معاشرے میں عورت کو کون پوچھے گا، آئے دن اس کی توہین و تذلیل کس کی نظر میں آئے گی،اس کے لہولہان بدن کو چادر کون دے گا، اس کی کچلی ہوئی عزت نفس، اس کا کھویا ہوا اعتماد اس کی آگے بڑھنے کی لگن اور بطور انسان اس کے وجود کا ادراک اسے کون کرائےگا؟اگر پڑھے لکھے خامو ش رہے، سول سوسائٹی سوتی رہی، باضمیر مرتے رہےاورگورنمنٹ شدت پسندوں کی شرائط تسلیم کرتی رہی تواس دھرتی پر تخلیقِ آدم کا بوجھ اٹھانے والی عورت جہالت ، ظلم اور بربریت کے دشت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائے گی اور اچھے دنوں کے خواب دیکھنے کےلیے آنکھیں تو کیا کسی کا وجود ہی نہیں رہے گا۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish


No comments:

Post a Comment