Friday 20 September 2013

شائستہ اور بلی

حفیظ درویش:

شائستہ اور بلی
شائستہ کو ایک دن گلی میں اپنے دروازے کے سامنے ایک   ننھی اورسفید  بلی ٹھٹھرتی ہوئی ملی۔اس نے اس بے ماں کی بلی کوپالنے کافیصلہ کیا۔شائستہ کی عمر تیس سال کے قریب تھی ۔لیکن اتنی عمر گذرنے کے باوجود اس کی شادی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔شائستہ اور اس کا  ایک کزن ایک دوسرے کو  پسند کرتے تھے  ۔لیکن اس کا چچا زاد کزن اس کی ماں کو ایک نظر نہیں بھاتا تھا۔جس کی وجہ سے یہ شادی رکی ہوئی تھی۔دوسری طرف عمر کی ٹرین تھی کہ مہ وسال کی منزلیں تیزرفتاری سے طے کیے جاری تھی۔
 شائستہ اس ننھی بلی کا بہت خیال رکھتی  اور کبھی کبھار ماں کی نظر بچا کر دودھ اور ملائی بھی ڈال دیتی۔اکثر یوں ہوتا کہ اگر بوٹیاں دو ہوتیں تو  شائستہ ایک خود کھاتی اور ایک بلی کو ڈال دیتی ۔ گرمی اور سردی سے بچانے کےلیے وہ  بلی کا بہت ساراخیال رکھتی ۔ گرمیوں میں اپنے کمرے میں ائیر کولر کے سامنے اور سردیوںمیں اسے اپنی رضائی میں پائنیتی کی طرف سلاتی ۔ وقت گذرتا رہا  اور وہ ننھی بلی جوان ہوگئی۔

دو چار دن سے شائستہ اپنی بلی کی حرکات کی وجہ سے پریشان تھی ۔ وہ کبھی زمین پر لیٹ جاتی ۔ جسم کو فرش پر آڑھا ترچھا کرتی رہتی ۔ عجیب وغریب آوازیں نکالتی  اور کبھی  بے قراری کے ساتھ اپنا جسم شائستہ کے جسم سے رگڑتی رہتی ۔ شائستہ نے اس سے قبل اس کو اس طرح کی عجیب حرکتیں کرتے نہیں دیکھا تھا۔  

ایک دن کچن میں شائستہ کام میں مصروف تھی اور بلی عجیب وغریب آوازیں نکالتے ہوئے  کبھی فرش پر  تو کبھی کسی الماری کے پائے کے ساتھ یا شائستہ کے پاوں کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی پھر رہی تھی۔ اتنی میں شائستہ کی ماں کچن میں آئی ۔ بلی کی ان حرکتوں کو دیکھ   کر وہ تھوڑی دیر سوچتی رہی۔ پھر مسکراتے ہوئے شائستہ سے  مخاطب ہوئی
"اب یہ بلی جوان ہوگئی ہے۔اور اس کو ایک بلے کی ضرورت ہے۔ لیکن میں اس بیچاری کےلیے کوئی بلا کہاں سے لاوَں"

یہ کہہ کر اس نے ایک پلیٹ اٹھائی اورزیرلب مسکراتے ہوئے کچن سے باہر چلی گئی ۔جبکہ شائستہ    اپنی ماں کی یہ بات سن کر سکتے میں آگئی۔ اور سوچنے لگی کہ کیا وہ بلی سے بھی گئی گذری ہے؟؟؟

No comments:

Post a Comment