Monday 23 September 2013

ناکردہ گناہ

حفیظ درویش

ناکردہ گناہ
کمرے کے دروازے پر مدہم سی دستک ہوئی۔ دروازے پر کون ہے اب؟ گھر والے تو سارے باہر گئے ہوئے ہیں اور گیٹ اند ر سے بند ہے۔آفتاب سوچتے ہوئے اٹھا اور جاکر دروازہ کھول دیا۔
"اوہ لبنیٰ تم !آوَ آوَ اندر آوَ" آفتاب دروازے پر خاموش کھڑی لبنیٰ کے لیے دروازہ کھول کر ایک سائیڈپر کھڑا ہوگیا۔
لبنیٰ کی عمر یہی کوئی انیس بیس سال ہوگی اور وہ آفتاب کی ہمسائی تھی ۔ دونوں گھروں کی چھتوں پر دو تین فٹ اونچی سنگل اینٹ کی دیوار تھی۔جس کو یہ لوگ آنے جانے کےلیے اکثر استعمال کرتے تھے۔دیوار پھلانگی اور سیڑھیوں سے اتر کر ایک دوسرے کے گھروں میں چلے گئے۔ عید شب رات یا دیگر  موقعوں پر   کھانے اس راستے سے  ایک دوسرے کے گھر ڈلیور کیے جاتے تھے۔ دونوں گھروں  کے لوگ اس کو شارٹ کٹ کہتے تھے۔
"شارٹ کٹ سے آئی ہو؟" آفتاب نے صوفے پر بیٹھتی ہوئی لبنیٰ سے استفسار کیا۔
"جی ہاں" لبنیٰ مختصر جواب دے کر کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔
"اتنی عرصے تک کہاں تھی تم ؟ میرے خیال ہے تم مجھے کوئی دو ماہ بعد نظر آرہی ہو؟" آفتا ب نے ذرا ناراض سے لہجے میں پوچھااور ایک چیئر کھسکا کرلبنی ٰ کے سامنے بیٹھ گیا۔
"میں اپنے انٹر کے امتحانات میں مصرو ف تھی" لبنیٰ جواب دے کر کتابوں کی الماری کا جائزہ لینے لگی۔
"کافی ساری نئی کتابیں نظر آرہی ہیں آپ کی الماری میں " لبنیٰ نے جیسے زبردستی اس بات کو سراہا ہو۔
"جی ہاں انگلینڈ  والے  چچا  آئے تھے پچھلے دنوں ۔انہیں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔انہیں میرے شوق کا بھی پتہ ہے۔ کوئی درجن بھر کتابیں اپنے ساتھ لے آئے تھے اور کچھ یہاں  سے  خرید کر گفٹ کردیں۔"
 "اچھا ہے" لبنی ٰ نے جیسے کسی اور خیال کی رو میں بہتے ہوئے یہ لفظ کہےہوں۔
"کیا بات ہے گڈیا؟اتنی خاموش کیوں ہو؟کوئی پریشانی ہے کیا؟"آفتاب نے پریشان ہوکر ایک ہی سانس میں دو تین سوال پوچھ لیے۔
آفتاب نے آج تک اسے اس طرح خاموش نہیں دیکھا تھا۔اس کی زبان بلٹ ٹرین کی اسپیڈ سے چلتی تھی اور شرارتوں کی تو جیسے اس کے پاس زنبیل تھی۔نت نئی شرارتیں  کرنا گویا اس کی ہابی تھی۔ باتوں کی اتنی رسیا کہ ابھی آفتا ب سے  اس کی جاب کا حال لے رہی ہے تو دوسرے سانس میں پاس سے گذرتی اس کی امی سے پوچھ لیتی کہ خالہ بیٹے کی شادی کب کررہی ہیں۔ بالوں میں چاندی اترآئی ہے۔ اب تو کردیں۔ جس پرآفتاب کی امی مسکرا کر گذرجاتی جبکہ چھوٹی کسی کمرے کی کھڑکی سے سر  نکال کر جواب دیتی ۔ لبنیٰ تم پریشان نہ ہو۔ بھائی  کی جاب کو دو سال  پور ے ہوگئے ہیں اوران کی پوروموشن بھی ہوگئی ہے ۔  بہت جلد ہم اپنے بھیا کے لیے پیاری سے دلہن لے کر آئیں گے۔
پیار ی سی دلہن۔اونہہ شکل دیکھی ہے اپنے بھائی کی۔اُس پیاری سی دلہن کوتمہارے بھائی سے شادی کرنے کی بجائے میں   مرنے کا مشورہ دوں گی۔جس پر چھوٹی تلملا کر کوئی کڑوی سے بات کرتی جس کے جواب میں لبنیٰ آگے سے زبان نکال کر دو کانوں پر ہاتھ رکھ کر پروں کی طرح پھڑپھڑاتی۔اس کے بعد آفتا ب کی طرف مڑ کر سرگوشی کرتی۔ کیوں بھئی آپ کی سمیر ا کا کیا حال ہے۔ سنا ہے آپ کی فیملی نہیں مان رہی ۔ اس کےبعد آنکھ مار کر کہتی کہ محنت جار ی رکھیں ڈئیر ۔ بچی آپ کو ہی ملے گی۔میر ی آنٹی سے گپ شپ ہوئی ہے اس حوالے سے۔تھوڑی سے محنت کریں مان جائیں گی۔اس کے بعد وہ گھر جانے کے لیے شارٹ کٹ کا استعمال کرتی اور سیڑھیوں پر پاوَں دھر کے اور اس بات سے مطمئن ہوکر کہ آفتاب اس کو نہیں پکڑ سکے گا۔ روز سے اس کی امی کو کہتی ۔ خالہ آپ کا بیٹا سمیرا  پھینی کے چکر میں ہے۔ اس کی شادی وہاں نہ ہونے دیجے گا ۔ بچہ خراب ہوجائے۔ جس پر  آفتاب اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا اور سوچتا کہ اس شیطان کا وہ کرے تو کیا کرے۔اس کا پتہ ہی نہ چلتا کہ کس کی سائیڈ لے رہی ۔اس کے بعد جلی بھنی بیٹھی چھوٹی کہتی کہ اس کی نہ تو دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی ۔
اس وقت آفتاب کے سامنےوہ شیطان یوں خاموش بیٹھی تھی جیسے پچھلے دوما ہ میں دھیان گیان کے بعد اسے  نروان مل گیا ہو۔
"کچھ خاص نہیں  آفتاب بھائی"لبنیٰ نے  کسی سوچ سے باہر آکر ایک گہرا سانس چھوڑتے ہوئے سوگوارسے لہجے میں جواب دیا۔
" چپ چپ بیٹھے ہو ضرور کوئی بات ہے، کسی کے ساتھ ٹانکا  تو نہیں بھڑگیا تمہارا؟" آفتاب نے ماحو ل میں موجود اس بے چین کردینی والی خاموشی کو ختم کرنے کےلیے لبنیٰ کو چھیڑنا شروع کردیا۔
جس پروہ  تقریباً روہانسی ہوکر اور جھنجلا کر  بولی" ایسا کچھ نہیں ہے آفتاب بھائی۔ بھاڑ میں جائے  یہ سب"
اب آفتاب کو معاملے کی سنگینی کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا۔ اور اس بار آفتاب نے تھوڑا  سا کفیوژ ہوکر پوچھا " آخر ہوا کیا ہے؟  تم مجھے  کچھ بتاوَ گی یاصرف پہیلیاں بجھواتی رہو گی؟"
"تو سنیں!  میرارشتہ آیا ہے"اس نے یہ بات یوں کہی جیسے کوئی بہت بڑا بم پھوڑا ہو۔اس جواب کے بعد آفتاب کا قہقہہ چھوٹ گیااور وہ ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا۔ جبکہ  لبنی ٰ بیوقوفوں کی طرح اسے دیکھتی رہی کہ نجانے اس نے ایسا کیا کہہ دیا ہو۔اس کی رونی شکل دیکھ کر آفتاب نےبمشکل خود پر قابو پایا اور دوبارہ شرارتی لہجے میں بولا" کس کے بیچارے کے نصیب پھوٹے ہیں جس نے تمہاری جیسی چڑیل کے لیے رشتہ بھیجا ہے؟"
"آفتاب بھائی"لبنی ٰ نے رو دینے والے لہجے میں یہ بات کہی اوراس بار واقعتاً اس کے آنکھو ں میں آنسو آگئے۔آفتاب یہ دیکھ کر واقعتاً پریشان ہوگیا اور لبنیٰ کے ہاتھو ں  کو اپنے ہاتھو ں لے کر بہت پیار سے بولا۔ "آئی رئیلی سوری  گڑیا۔اچھا اب  بتاو میری بہنا کو کیا ہوا"یہ  ہمدردی کے لفظ سننے تھے کہ وہ زاروقطار رونے لگی۔آفتاب نے اسے رونے دیا۔سوچنے لگا کہ لڑکیاں اس عمر میں اس طرح کی باتوں کو لے کر بہت جذباتی ہوجاتی ہیں ۔چونکہ لبنیٰ نے کئی آفتاب کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ بنے گی اور اس کے بعد اپنی مرضی سے شادی کرے گی۔
شاید اتنی چھوٹی سی عمر میں شادی کا سن کر پریشان ہوگئی  ہے۔"اچھا رونا بند کرو اور یہ پانی پیو" آفتاب نے ساتھ موجود ٹیبل پر پڑے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈال کر اس کو دیا ۔اس دوران اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ، چھوٹی سی ناک اور بھرے بھرے گال سرخ ہوچکے تھے ۔
"اچھا مجھے بتاوَ کس کا رشتہ آیا ہے؟"آفتاب نے  اس کے پانی پی چکنے کے بعد بڑی شفقت سے سوال کیا
"میرے چچا کے بیٹے حماد کا"یہ کہتے ہوئے ایک تلخی سی اس کے لہجے میں پھیل گئی۔
لبنیٰ اور آفتاب کی فیملی پچھلے  بیس سالوں سے ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں رہ رہی تھی ۔اس لیے ان سب کو ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا الف سے ی تک پتہ تھا۔آفتاب کی عمر اٹھائیس سال کے قریب تھی اور اس نے لبنی ٰ کو اپنے سامنے بڑے ہوتے دیکھا تھا۔دونوں گھرانوں کے بچے ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھتے تھےاور ایک دوسرے کی مصیبت میں سگّوں کی طرح پریشان ہوجاتے تھے۔
لبنی ٰ کے دوبارہ رودینے کے ڈر سے آفتاب نے خود کو سنجیدہ رکھا اور پیار بھرے لہجے میں کہا" گڑیا اس میں غلط کیا ہے ؟  تمہارے کزن نے  ایم کیا ہے،آج کل  جاب کی تلاش میں ہے ۔ جو مجھے پورا یقین ہے کہ اسے جلد مل جائے گی اور کونساتمہاری فیملی آج ہی شادی کرنے والی ہے ،فی الحال  تومنگنی ہوگی، دو تین سال بعد شادی ہوگی۔ اس وقت تک تم اپنا بی اے کرچکی ہوگی۔آگے پڑھنے کا ارادہ ہوا تو اپنے کزن کو پیارمحبت سے منا لینا کہ شادی کے بعد تمہیں پڑھنے دے"
"آفتاب بھائی معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے آپ کو لگ رہے ہیں، مجھے نہیں کرنی اپنے کزن سے شادی۔ وہاں جا کر میری زندگی عذاب ہوجائے گی" لبنیٰ نے یہ بات کچھ یوں کہی جیسے وہ آفتاب کوجو سمجھانا چارہی ہے وہ سمجھا نہیں پارہی۔
"کم آن گڑیا! تم کو ایسا شاید اس لیے لگ رہا ہے کہ شادی کے بعد تمہیں روایتی ٹی وی والی ساس سے پالا پڑے گا، تمہاری نندیں تمہاری زندگی عذاب کردیں گئیں،پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوگااور ویسے بھی تم خوش قسمت ہو کیونکہ تمہاری دو کزنیں ہیں جو جوان ہیں،ان کی شادیاں تمہاری شادی سے پہلے ہوجائیں گی،باقی رہ گئی تمہاری چچی تو میرے بچے وہ ایک بوڑھی اور بیمار خاتون ہےاور جلد ہی اس کا رام نام ستے ہوجائےگا، پیچھے بچ جاو گے تم میاں بیوی اور تمہارا چچااور مجھے یاد نہیں کہ آج تک کسی سسر نے اپنی بہو پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہوں۔
"چچا کون سا انسان ہے۔ وہ تو کسی جانور سے بھی بدتر ہے"لبنی نے انتہائی زہریلے لہجے میں کہا۔
"ایسا نہیں کہتے بڑوں کو" آفتا ب نے اسے فوراً ٹوکتے ہوئے کہا۔ پھر کسی خیال سے چونک کر وہ لبنی ٰ سے مخاطب ہوا۔
" کہیں تمہیں یہ تو نہیں لگا رہا کہ وہ تمہارے باپ کی جائیدار پر نظر گاڑے ہوئے ہیں؟ چونکہ وہ تم لوگوں سے جائیداد اور مال ودولت کےمعاملے میں کافی پیچھے ہیں،اس لیے شاید تمہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو مضبوط کرنےکےلیےیہ سب کررہے ہیں" آفتا ب کی اس بات پر وہ لبنی ٰ خاموش رہی ۔
جس کے بعدآفتاب نے بات آگے بڑھائی" ویسے بھی گڑیا مجھے معلوم ہےکہ تم  لوگ کافی خوشخال  ہو۔شہر میں دو چار پلاٹ ہیں۔ انکل کا کافی بڑااور کروڑوں کا بزنس ہے۔اور یہ سب تم دو بہنوں کا ہے۔اب اگر تمہاری شادی کہیں اور بھی ہوتی ہے تو پلاٹ،گاڑی اور پیسہ انکل اس داماد کو بھی دیں گے۔اگر اپنے ایک بھتیجے کو دے دیں گے تو کیا برا ہے۔اور اگر تمہارے چچا اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے ایسا سوچ رہے ہیں تو کون باپ چاہتاکہ اس کی اولاد عذاب میں رہے"
کافی دیر سے خاموش بیٹھی لبنی ٰ نے پھٹ پڑنے والے لہجے میں کہا
"وہ کتا اپنے آپ کو عذاب سے بچانے کےلیے یہ سب کر رہا ہے، اس بے غیرت کو بیٹے کے مستقبل کی نہیں بلکہ اپنی پڑی ہے"
"شٹ اپ لبنی ٰ !بہت ہوگئی تمہاری بکواس" آفتاب نے بھی قدرے چیخ  کرکہا
لیکن لبنی ٰ نے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ وہ اپنی اسی رو میں دوبارہ بولنے لگی۔"آپ کو پتا ہے کہ میرا چچا میرے باپ پر دباوَ ڈال رہا ہے کہ بس اگلے چند دن میں شادی کی جائے۔ اس سور نے میرے باپ کو جذباتی کر کے اپنے حق میں کرلیا ہے۔اور کرے بھی کیوں نا۔ انسان خود کو بچانے کےلیے کیا نہیں کرتا۔اپنا کیا دھرا کسی کے سر پر تو ڈالتا ہے۔جب کوئی اور قربانی کا بکرا نہ ملے تواپنی اولاد کو  قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا"
"کیا اول فول بکے جارہی ہو!مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا"آفتاب نے پریشان ہوکر لبنی ٰ کی طرف دیکھا۔آفتاب کو یہ لبنیٰ وہ نہیں لگ رہے تھی جس کو اس نے دو ماہ پہلے دیکھا تھا۔
" میں کوئی اول فول نہیں بک رہی ، جو سچ ہے وہ بتا رہی ہوں۔ میرا کوئی بھائی نہیں اس لیے ہمیشہ آپ کو اپنا بڑابھائی سمجھا۔آپ پر اعتماد کیا۔ ۔کل رات میری ماں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اگر میں راضی ہوں تو وہ اس رشتے کےلیے ہاں کردیں۔ میرے ذہن میں آپ کا خیال آیا اور میں آپ کے پاس چلی آئی۔ مجھے پتہ تھاکہ آپ کے گھر والے اس وقت موجود نہیں  اس لیےاکیلے میں آپ سے بات کرنے  آگئی۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ  تعلقات ہیں ۔آج میں ایک دوراہے پر کھڑی ہوں ۔میرے پاس دو آپشن ہیں ۔یا تو میں خودکشی کرلوں یا پھر ابورشن کرالوں"
یہ بات سن کر آفتاب چکر اکر رہ گیا اورکافی دیر تک خاموش رہا " اس لیے تم دو ماہ تک نظر نہیں آئی؟ اور کیا تمہار ا چچا!!!!"آفتاب نے فقرہ پورے کیے بغیر لبنی ٰ کی طرف دیکھا جو شکستہ خوردہ اور ٹوٹی ہوئی صوفے میں  بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی اور پھر یک دم اٹھ کر آفتا ب کے گلے  لگ کر بچوں کی طرح ہچکیاں لے کررونے لگی۔
آفتاب بھائی مجھے بچا لیں آفتاب بھیا  مجھے بچا لیں،اپنی گڑیا کو اپنی بہنا کو بچالیں" لبنی نے  ڈرے ہوئے بچوں کی طرح چیختے ہوئے کہا۔لبنیٰ کے اس طرح سینے کے ساتھ لپٹ کررونے سے آفتاب کی آنکھیں بھی بھرآئیں۔
"کچھ نہیں ہوگا میری گڑیا کو ،میں اپنی بہن کو مرنے نہیں دوں گا" آفتا ب نے لبنی ٰ  کو اپنے سینے میں چھپاکرروتے ہوئے جواب دیا۔۔
https://twitter.com/Hafeez_Darwaish


No comments:

Post a Comment