Wednesday 11 March 2015

ضمیر کا بیرئیر ۔۔۔۔


ضمیر کا بیرئیر ۔۔۔۔
 حفیظ درویش
وہ اسلام آباد میں مری روڈ پر سامنے سے آنے والی  ٹریفک  کے بیچ ٹرانس کی حالت میں کھڑی تھی۔تیس سال سے اوپر کی عمر، قدرےموٹی آنکھیں ،گندمی رنگت،تھوڑا نکلا ہوا قد اور بھرا ہوئے جسم کی وجہ سے وہ کافی بھلی لگ رہی تھی ۔ تن پر موجود  سستے اور بے رنگ سے کپڑے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ اُس کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے۔دوپٹہ سر سے ڈھلکا ہوا تھا۔صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے  روڈ پر بہت زیادہ رش تھا۔ لیکن گاڑیوں والے اس خاتون کو بچاتے ہوئے آس  پاس سے گذر رہے تھے۔پر وہ چپ چاپ کھڑی آنے والی ٹریفک کو آنکھ چھپکے بغیر تکے جارہی تھی۔

 اتنے میں اس کے پیچھے اسے ایک مرد بھاگتا ہوا آیا اور کندھوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کیا اور پھر اس پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ تھوڑی دور آگے جاکر دو  موٹرسائیکل کھڑے تھے۔ جن  میں سے ایک پر دو مرد تھے جبکہ ایک سٹینڈ پر کھڑا تھا۔غالب امکان یہی ہے کہ یہ خاتون اس موٹر سائیکل سے اتر کر اس طرف ٹریفک میں آکر کھڑی ہوگئی تھی۔جس کے بعد مرد نے موٹرسائیکل کھڑی کی ہوگی اور اس کو پکڑنے روڈ کے درمیان آگیا اور وہیں پر اس کو سزادینے لگا۔امکانات سو ہوسکتےہیں کہ یہ عورت ٹریفک کے درمیان کیوں کھڑی تھی۔

ممکن ہے کہ یہ اپنے شوہر سے ناخوش ہو اور اس وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئی ہو۔ بے الاود  ہواور طعنوں نے اس کے حواس چھین لیے ہوں ۔ممکن ہے کہ غربت سے تنگ کر اس نے کسی گاڑی کے نیچے آجانے کا فیصلہ کرلیاہو۔ممکن  ہے کہ اس  کا شوہر اسے  ماں باپ کے گھر ہمیشہ ہمیشہ  کےلیے چھوڑنے جارہا ہو۔ یہ بھی امکان ہے کہ   جو آدمی اس کو تھپڑ مارہا تھا وہ اس کا بھائی، دیور یا کزن ہو۔ سو امکانات ہوسکتے ہیں کہ وہ وہاں کیوں کھڑی تھی۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس عورت  پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں، سرعام اور سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں تھپڑوں کی بارش نہیں ہونی چاہیے تھی۔ایک مسلمان ملک،جہاں چوبیس گھنٹے یہ ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر پھاڑا جاتا ہے کہ خواتین بہت اعلی مقام کی حامل ہیں۔ان کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ یہ عزت اور وقار کے لائق ہیں۔ ان کو پھولوں کی طرح رکھنا چاہیے ۔ جہاں ہر کسی کے  منہ سے یہ مصرعہ سنائی دیتا ہے کہ۔۔وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ۔۔وہاں عورت کی یوں بے توقیر ی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔

تھپڑ مارنے کے بعد وہ (نا)مرد اس بے بس خاتون کو ہاتھ سے پکڑکر موٹرسائیکلوں کی طرف آنے لگ گیا جو تھوڑی آگے کھڑی تھیں۔سب چپ تھے۔کسی نے آگے بڑھ کر اس بندے کا ہاتھ نہیں روکا۔ ہر کوئی گذر رہا تھا۔کسی نے اپنی گاڑی کی سپیڈ ہلکی کرنا بھی گوارا نہ کی۔سب گذر رہے تھے ۔ یہ سب میرے سامنے  پندرہ سے بیس سکینڈ میں ہوا اور اس کے بعد میں اس جگہ  سےکافی آگے نکل گیا۔ہم لوگوں کے لاشعور میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ اگر عورت مار کھا رہی ہے تو یہ معمول کی بات ہے اور اس پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا رویہ عورت  پر تشدد کے حوالے سے سرد ہے۔ یہ مار پیٹ ہم بچپن سے دیکھتے چلے آرہےہیں ۔ سڑک  پر گدھا پٹ رہا ہوں یا عورت ۔ بدقسمتی سے ہمارا رویہ دونوں کے حوالے سے ایک سا ہے۔یعنی تھوڑا ساتاسف کرکے آگے گذر جاتےہیں۔کیونکہ یہ ایک معمول ہے اور معمول سے ہٹ کرکچھ سوچنا اور کرنا ویسے بھی انسانوں کےلیے کافی مشکل ہے۔اس ملک میں مجموعی طور پر جانوروں اور عورتوں کی حیثیت ایک سی ہے۔
میں بھی ان بزدلوں میں شامل تھا جواس عورت کو پٹتے ہوئے دیکھ  کر گذرگئے۔کیونکہ مجھے بھی آفس جانا تھا۔ آس پاس سے گذرتے ہوئے سینکڑوں لوگوں کی طرح  یہ معاملہ میرا معاملہ نہیں تھا۔ گذر تو آیا  لیکن   اب ضمیر کے بیرئیر سے آگے نہیں  جاپارہا  ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور آخر کار میں نے یہ سب لکھ ڈالا۔ میں مانتا ہوں  کہ میرا ایمان اتنا مضبوط نہیں  تھا کہ اس وقت آگے بڑھ کر اس کو روک دیتا۔ لیکن میں اس کو دل میں برا نہیں کہوں گا۔ میں اپنے قلم اور منہ سے اس کو برا کہوں گا۔ امید کرتا ہوں کہ   لفظوں سے شروع کیا ہوا یہ سفر ایک دن کسی ظالم کا ہاتھ روکنے  تک پھیل جائے گا۔

No comments:

Post a Comment