Wednesday 5 February 2014

5 فروری


حفیظ درویش
 
۔۔پانچ فروری۔۔
 
وہ ایک پنتیس سالہ کشمیر ی تھا۔ جی ہاں ایک اصل کشمیری،جس کی آنکھوں میں اور چہرے پر اس وادی کے سرسبز جنگلوں اور خوبصورت نظاروں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے لیکن ا ن رنگوں پر اداسی کی ایک گردبھی بکھری ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پرآزادی کےلیے ایک لمبی جدوجہد کے نقوش موجود تھے۔ اسلام آباد میں فروری کے آغاز میں بادل برس پڑے تھے ۔ بارش ذرا دیر پہلے تھمی تھی لیکن اس کی خنکی ہوٹل کے اندر تک آرہی تھی۔اس کے ساتھ ٹیبل پر ایک چھبیس سالہ جوان بیٹھا ہوا تھا۔جس نےاپنی جیکٹ کی زپ بند کرتے ہوئے قدرے تاسف بھرے لہجے میں پوچھا۔" سنا ہے کہ دشمن کی افواج وہاں پر بڑا ظلم ڈھاتی ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ہی اپنا بھاپ اڑاتا چائے کا کپ اٹھا لیا۔

کشمیری جس پر یہ سردی سے کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہورہی تھی نے گہری نظروں سے جوان کودیکھا ۔ پھر تھوڑی دیر تک اپنے الفاظ کو ترتیب دی۔ شاید وہ بات کو مختصر لیکن موثر لفظوں میں بیان کرنے کےلیے یہ وقفہ کررہا تھا۔جبکہ اس دوران 
 سوال کرنے والے نے اپنا سگریٹ دوبارہ ایش ٹرے کے کنارے پر بنے ہولڈر میں سے نکال کر ایک گہرا کش لیا۔

"
بات یہ ہے" کشمیر ی نے یہ کہہ کر تھوڑا سا وقفہ کیا۔ پھر جلدی سے چائے کا ایک گھونٹ بھرا ۔ " اگرچہ بھارتی افواج نے وہاں ظلم کیا لیکن اس کے پیچھے پاکستان کےجہادیوں کا ہاتھ تھا۔ ان جہادیوں کا جن کو پاک فوج نے وہاں جہاد کےلیے بھیجا اور جن کو پاکستان کی تقریباً ہر حکومت نے سپورٹ کیا۔ ان مجاہدین کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا۔"
"
پرمجاہدین نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اوراپنی ہر آسائش کو تج کر آپ لوگوں کی مدد نہیں کی؟"جوان اس جواب کے لیے ہرگز تیار نہیں تھا اس نے جلدی سے بات کاٹ کردوسرا سوال داغ دیا۔
"
مجاہدین!"کشمیری نے کاٹ دار اور زہریلے لہجے میں کہا۔ اس کے لہجے میں اتنی کڑواہٹ تھی کہ وہ جوان کو اپنے چائے کے گھونٹ میں محسوس ہونے لگی۔
 
"
مجاہدین وہاں کونسا جہاد کررہے ہیں ؟ رات کو کسی عام کشمیر ی کے گھر گھس جانا، گھر والوں کو کہنا کہ ہم مجاہدین ہیں اور اسکے بعد ان سے کھانے کےلیے مانگنا۔ان کو کہنا کہ بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت بنا کر ہمیں دو۔ کیونکہ ہم نے اپنے ٹھکانے پر لےکرجانا ہے۔ گھر کے سارے پھل سمیٹ لینا۔ بر ف میں گھرے لوگوں سے وہ چیزیں چھین لینا جن پر ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے کیا یہ جہاد ہے آپ کی نظر میں ؟" کشمیر ی نے شعلہ بار نگاہوں نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
کشمیری کے اس سوال پر جوان ہڑبڑا سا گیا۔ اس کے اندر موجود ایک سچے پاکستانی ہونے کا تفاخر ہلکے ہلکے سے کانپنے لگا۔اس سے پہلے کہ وہ اس جھوٹے سچے تفاخر کو اور "کشمیر بنے گا پاکستان "کے نعرے کو کوئی مصنوعی تنفس دیتا۔ اس کشمیر ی نےجواب نہ آنے کے باوجود گفتگو کا سلسلہ دوبارہ جوڑ دیا۔
"
دوسری طرف بھارتی افواج کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ وہ پانچ روپے کا انڈہ سات روپےمیں خریدتے ہیں۔وہ ہم سے نہیں کہتے کہ ہم جہاد کررہے ہیں اورہمیں اپنے مال مویشی ذبح کرکے دو یا جو گوشت کے پارچے گھر میں پڑے ہیں وہ اٹھا کے دو  "
 
جوشیلے جوان کے اندر کا اعتماد اور کشمیر کے حوالے سے سارا جذبہ کافی حدتک ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ اس نے خود پر مصنوعی سنجیدگی اور تفکر طاری کرتے ہوئے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور اپنی طرف سے بہت ہی مہلک اور جاندار سوال پوچھا۔
"
کشمیر میں جو ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہید ہوئے اور جو عصمتیں لٹیں وہ سب کیا تھا؟"اس سوال کے لیے وہ کشمیری جیسے ذہنی طور پر پہلے سے ہی تیار تھا۔ ایک زہر میں بجھی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی۔ اس کے بعد اس نے چائے کا گھونٹ پیا تاکہ لہجے کی تلخی پر قابو پاسکے۔
 
"
نہ آپ لوگ جہاد کا جھنڈا لےکر ہماری زمین پر آتے اور نہ ہی ہم لوگوں کو اس عذاب سے گذرنا پڑتا۔ ہم تو چکی کے دوپاٹوں میں پسے۔ آپ کے مجاہدین کی تلاش میں آرمی نے ہمارے نوجوان مارے دوسری طرف مجاہدین نے بھی ہمارے جوان مارے اور وہ اس شک میں کہ یہ آرمی کےلیے کام کرتے ہیں۔ رہ گئی عصمتیں لٹنے کی بات تو جناب تصویر کا ایک رخ ہی آپ دکھایا گیا ہے۔کسی نے شاید آپ کو یہ نہیں بتایا کہ مجاہدین جب کسی کے گھر میں گھستے ہیں تو وہاں کے لوگ اپنی جوان لڑکیاں چھپا لیتے ہیں کہ کہیں مجاہدین ان کو مال غنیمت نہ سمجھ لیں۔ برف باری کے دنوں میں عموماً یوں ہوتا کہ وہ ہماری بیٹیوں ، بیویوں اور بہنوں کواس تہہ خانے میں لے جاتے ہیں جو شدید برف باری سے بچنے کےلیے بنایا گیا ہوتا ہےاور تقریباً ہرگھر میں موجود ہوتا ہے۔ہم مرد حضرات رات کو اوپر بیٹھ کر بے بسی اور لاچاری سے یہ جہاد دیکھتے رہتے ہیں اور پھر صبح اذانوں سے قبل وہ باقی ماندہ مال غنیمت لوٹ کر چلتے بنتے ہیں"کشمیر ی کے ان جملوں نے تو جیسے جوان کو اندر تک منجمد کردیا۔"تو کیا آپ لوگ آزادی نہیں چاہتے ؟" اس نے بلا سوچے سمجھے پوچھا
 
"
ہم آزادی چاہتے ہیں" کشمیر ی نے دوٹوک جواب دیا۔ اس جواب سے جوان کا منجمد وجود جیسے کسی نادیدہ حرارت کے زیر اثر پگھلنے لگا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔اس نے اشتیاق سے بھرے لہجے میں پوچھا۔
کشمیر ی ٹیبل پر جوان کی دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی قمیص اس کے رانوں پر پھیلی ہوئی تھی۔کوئی لمبا جواب دینے کی بجائے اس نے رانوں پر سے قمیص ہٹائی اور ٹانگوں کے درمیان کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا " ہمارا یہ آتا ہے پاکستان کے ساتھ"اور اس جواب سے جوان پر جیسے کوئی گلیئشر آن پڑا۔

No comments:

Post a Comment