Wednesday 5 February 2014

کھلی ہوا میں چند سانسیں

۔۔کھلی ہوا میں چند سانسیں۔۔

میری کولیگ نےمیرے ہاتھ میں موجود چائے کے کپ کو دیکھا اور کہا" آپ نے چائے بنالی؟"
"کیا آپ نے بھی پینی تھی؟" میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جن میں ایک جھجھک اور معصومیت سی لرز رہی تھی۔
 
میری یہ کولیگ سخت گیر مذہبی خیالات کی مالک ہے۔صبح آکر میٹنگ کےدوران ایک رکوع قرآن کا ترجمہ کےساتھ پڑھتی ہے۔گاؤن اور عبایا پہنتی ہے۔
"وہ دراصل میں چاہتی تھی کہ اگر آپ چائے بنانے لگے ہیں تو الیکٹرک کیٹل میں پانی زیادہ ڈال دیتے۔ تاکہ میں بھی اپنی چائے بنالیتی  "

 اوہ آئی ایم رئیلی سوری، مجھے یاد نہیں رہا آپ سے پوچھنا۔ کیا میں جاکر کیٹل میں آپ کے حصے کا پانی ڈال دوں؟" میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔

"نہیں نہیں آپ زحمت نہ کریں"اس نے گھبرا کر جلدی سے کہا۔
اس کے لہجے میں ہاں ناں والی کیفیت تھی۔وہ چاہ رہی تھی کہ میں اس کےلیے چائے کا کپ بنادوں لیکن وہ یہ بات کہہ بھی نہیں پارہی تھی۔
 
"آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ چینی کتنی پیتی ہیں؟" میں نے طے کرلیا کہ اس کو چائے کا کپ بناکر دوں۔
"نہیں نہیں پلیز آپ رہنے دیں۔ میں خود بنالوں گی"اس کے لہجے میں موجود ہاں ناں کا تناسب بگڑنے لگا۔
"آپ کتنے چمچ دودھ اور چینی چائے میں ڈالتی ہیں" میں نے اس بار ذرا جمے ہوئے لہجے میں کہا۔
"ایک چمچ چینی اور دو چمچ دودھ" اس نے قدرے نروس ہوکر کہا۔

"آج موسم ذرا بے ایمان ہے اس لیے بنا کر دے رہاہوں" میں نے قدرے مسکرا کر اس کی گہری کالی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ جہاں اب اپنائیت کی ہلکی سی لو جل اٹھی تھی۔

میں نے جاکر الیکٹرک کیٹل میں دیکھا تو اس میں پانی موجود تھا۔کیٹل کو آن کرنے کے بعد میں نے کپ میں ٹی بیگ ڈالا اور اس کے بعد چینی ڈال دی اور اپنے کپ میں سے چائے کے سپ لینے لگا جو میں اپنے ساتھ کچن میں لےکر گیا تھا۔
چائے تیار کرکے جب میں واپس آیا تو وہ فون پر آفس کے کام کے حوالے سے کسی سے بات کررہی تھی۔ میں نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا۔ اس نے فون پر گفتگوکرتے تشکرانہ مسکراہٹ میری طرف اچھالی۔

میں واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میری کیبن کے پاس آئی اور مجھے سے کہا
"شکریہ اس نوازش کےلیے۔ آپ نے بہت اچھی چائے بنائی ہے۔"اس کے لہجے میں واقعتاً ایک ممنونیت تھی۔
"اٹس اوکے ڈئیر" میں نے مسکرا کہا۔

"ویسے خیال کیا کریں، دو چمچ دودھ پینے سے آپ کے وزن کے بڑھنے کا اندیشہ ہے اور میں نہیں چاہتا کہ آپ کا یہ خوبصورت سراپا  سیاپا بن جائے" میری اس بات پر وہ کھکھلا کر ہنس پڑی۔ جاندار مسکراہٹ اور میری شریر جملے نے اس کے چہرے پر رنگوں کی وہ رین بو پھیلائی کہ میں خود حیران رہ گیا۔

میں نے کبھی غور نہیں کیا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہے۔اس کی آنکھیں مسکراہٹ کی وجہ سے کاجل کوٹھا ہوگئیں
تھیں۔
"ویسے چائے کے ساتھ ساتھ آپ باتیں بھی بہت اچھی بنالیتے ہیں" اس نے سچ میں سراہتے ہوئے کہا اور اس وقت اس کے کسی بھی جملے یا چہرے کے تاثر سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ایک مذہبی انسان ہے۔ اس وقت وہ صرف ایک انسان تھی۔ فطری جذبوں کے زیر اثر مہکتی ہوئی اور دمکتی ہوئی ایک انسان۔

"اگرآپ میری باتوں کے چکر میں آگئیں تو آپ کی چائے ٹھنڈی ہوجائے گی" میں نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
"اوہ یاد آیا میں تو چائے اپنے کیبن میں ہی بھول آئی۔ بائے دی وے ایک بار پھر تھینک یو ایک مزیدار چائے کے لیے"اس نے ایک ادا کے ساتھ کہا اور اس کے بعد اپنے کیبن کی طرف چل پڑی ۔ جبکہ اس دوران مذہب کہیں کسی کونےمیں پڑا اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔


No comments:

Post a Comment