Tuesday 28 January 2014

۔۔خوف اور مذہب۔۔


۔۔خوف اور مذہب۔۔

 حفیظ درویش

آج صبح آفس پہنچے مجھے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے ایک سینئر ایڈیٹر دائیں بائیں دو رویہ کیبنوں کے درمیانی راستے پر کھڑے ہوگئے۔ دونوں جانب دس کیبن ہیں۔ جس میں اس وقت سات لوگ موجود تھے۔ انہوں نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کےلیے اونچی آواز میں کہا کہ آپ سب لوگ میری ایک بات سنیں۔ ہم لوگ سمجھے کہ شاید میگزین کے حوالے سے کوئی اہم بات کرنے لگیں ہیں۔ ہمارے یہ ایڈیٹر صاحب ابھی چند روز قبل عمرہ کرکے آئے ہیں اور اپنے منڈھے ہوئے سر کو چھپانے کےلیے پٹھانوں والی روایتی ٹوپی پہنتے ہیں۔ جب سب نے اپنی اپنی کرسیاں موڑ کر رخ ان کی طرف کرلیا۔ تو انہوں نےاپنی ٹوپی کو دو ایک آگے پیچھے کھسکانے کے بعد پرانی جگہ پر سیٹ کیا اور کچھ یوں مخاطب ہوئے۔ 
"
آج میں آپ لوگوں سے ایک واقعہ شئیر کرناچاہتا ہوں۔ یہ واقعہ کل میرے ایک دوست نے دیکھا اور مجھے بتایا۔ہوا کچھ یوں کہ کل آفس سے واپس جاتےہوئے میرے دوست کا گذر راولپنڈی کے ایک بڑے قبرستان کے پاس سے ہوا۔ وہاں سڑک کے کنارے لوگوں کا ہجوم تھا۔ میرے دوست سمجھے کہ شاید کوئی ایکسیڈینٹ ہوا ہو۔ انہوں نے جب پوچھا تو پتہ چلا کہ قبرستان کے اندر کسی قبر سے آوازیں آرہی تھیں۔ وہاں موجود ایک لڑکا لوگوں کو اس قبر کے پاس سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا لیکن لوگ وہاں کھڑے موبائل سے تصویریں اور ویڈیوز بنارہے تھےاورکوئی بھی وہاں سے ہٹنےکو تیار نہیں تھا۔ آخر کار اس لڑکے نےلوگوں کو وہاں پڑے روڑ ے اٹھا کر مارنا شروع کردیئے۔ جس کی وجہ سے دوتین لوگوں کو چوٹیں بھی آئی۔ امکان یہی ہے کہ وہ قبر شاید اس لڑکے کے کسی عزیز کی تھی "ہمارے ایڈیٹر کے لہجےمیں کہانی سناتے ہوئےایک ڈر سا موجود تھااور ان کی پوری کوشش تھی کہ ہم بھی اس ڈر میں پوری طرح لتھڑ جائیں۔
"
واقعہ بتانےکا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے اعمال پرتوجہ کریں اور اپنی گناہوں کی معافی طلب کریں اور یقیناً خدا مہربان ہے اور رحیم ہے" انہوں نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ مجھے یوں لگا کہ اس آپ سے مراد میں ہی ہوں۔ کیونکہ ان کو کچھ کچھ اندازہ ہوگیاہے کہ میں گمراہ ہوں۔ میں نے اس دوران سیٹ سے اٹھ کر باقی کیبنوں میں موجود لوگوں کے چہرے کے تاثرات نوٹ کرنے کی کوشش کی۔ جن میں سے تین چار کے چہرے مجھے نظر آگئے۔ جہاں فکرمندی اور خوف کے گھنے سائے چھائے ہوئے تھے۔ اپنے مقصدمیں کامیاب ہونے کے بعد ایڈیٹر صاحب نے اپنے کمرے کا رخ کرلیا جبکہ باقی لوگ اپنی آخرت کی فکر میں غلطاں نیم دلی کے ساتھ دوبارہ کام میں مصروف ہوگئے۔ 
مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان صاحب نے اپنے دوست کا واقعہ سنایا جو کےقبرستان کے پاس سے گذر رہاتھا۔ اور دوست نے بھی واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا بلکہ وہاںموجود کسی بندے پوچھا تھا اور اب یہ صاحب یہ واقعہ سنا کر باقی لوگوں کی پینٹیں گیلی کرنےکی کوشش کررہے تھےجس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوگئے تھے۔ اس سارے معاملے کو دیکھ کر ایک بات تو میری سمجھ میں پوری طرح آگئی کہ مذہب خوف اور پروپیگنڈے کی پیداوار ہے۔ اور عام لوگ اس خوف کی وجہ سے اس کو فالوکرتے ہیں۔ 
ممکن ہے کہ وہ لڑکا کوئی ذہنی مریض ہو اور اس نے چیخ پکار کی ہو۔یاویسے ہی لوگوں پر روڑے برسائیں ہوں۔یا قبرستان میں موجود کسی نشئی نے دعویٰ کیا ہوکہ مجھے قبر میں سے آوازیں آئی ہیں اور پھر لوگ وہاں جمع ہونے شروع ہوئے ہوں۔ اور پھر یہ خبر رینگتے رینگتے سڑک تک آگئی ہو اور اس کے بعد اس خبر کا خوف لوگوں کے دلوں میں بیٹھنے لگ گیا ہو اور رہی سہی کسر مذہبی کہانیوں نے پوری کردی ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بے تحاشا مومن کی حسیات نے اس کے کو ایسی آوازیں سنادی ہوں اور اس نے بعد میں شور مچا دیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی شخص نے کوئی مزار بنانے کےلیے یہ چکر کیا ہو۔امکانات سو ہوسکتے ہیں ۔ لیکن ایک مذہبی انسان اس پر بالکل نہیں سوچے گا۔ ایسا واقعہ سن کر تواس کے اندر خوف کا ایک انبار لگ جاتا ہے جس کے بعد وہ توبہ توبہ کا ورد شروع کردیتا ہے جبکہ اسی خوف کو استعمال کرکے مذہب اور مذہب کے کرتا دھرتا اس کی منجی ٹھوکتے رہتے ہیں۔ 

1 comment:

  1. aysa hota hai ........ I myself observed this what you say ? I am not favoring a religion here but it happened in 1990-1991.

    ReplyDelete