Friday 24 January 2014

بس اتنا خیال رہے


۔۔حفیظ درویش۔۔
رات اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیکس مرکز کے ساتھ ہزارہ برادری نے دھرنا دیا ہوا تھا۔جس کا مقصد ہزارہ برادری کی نسل کشی روکنے اور مستونگ میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی اوراس میں مرنے والے ہزارہ لوگوں کے قاتلوں کی گرفتاری تھا۔ میں بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں گیا۔ ہم شام چھ سے رات ساڑھےدس بجے تک وہاں موجود رہے۔ ساڑھےدس بجے دھرنا اس بات پرفریز کردیا گیا کہ اگرمطالبات قبول نہ ہوئے اور لشکر جھنگوی کے خلاف بھرپور کاروائی نہ ہوئی تو دھرنا دوبارہ شروع کردیا جائے اور اس کے بعد تب تک جاری رہے گا جب تک حکومت ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔ دھرنےکے شرکاء کی تعداد کوئی ساٹھ کےقریب تھی۔خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان ہر جنس اور عمر کافرد دھرنے کا حصہ تھا۔دھرنےمیں ریحانہ ہاشمی بھی موجود تھیں۔ جو دھرنےکے اختتام تک وہاں موجود رہیں۔ایک آدھ این جی او کےلوگ آئے اور تصویریں کھینچوا کر یہ جا وہ جا ہوگئے۔
میں نے نعروں کی ایک فہرست تیار کررکھی تھی۔ جو میں نے وہاں وقتاً فوقتاً لگوائے۔اس دوران انتظامیہ کے اہلکار بھی آتے رہے اور دھرنےکے شرکاء سے کہتے رہے کہ وہ دھرنا جلد سے جلد ختم کریں۔ کیونکہ مارکیٹ والے کہتےہیں کہ ان کےکاروبار کا نقصان ہورہا ہے۔
میں نے جب تاجروں کی یہ بےحسی دیکھی اور آس پاس سے نظارہ کرکے گذرنے والے کے تاثرات دیکھے تو دل دکھ سے بھر گیا۔میرے ذہن میں اُس وقت جو خیالات کوند رہے تھے۔ان کو لفظوں کی شکل دینا مشکل تھا۔ یہ لوگ اپنےکاروبار کورو رہے تھے۔ لیکن ان کو اس بات کا اندازہ تک نہیں ہے کہ تاریخ کا سبق کیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بدامنی ہوتی ہے، لوگوں پر ظلم اور تشدد ہوتا ہے تو اسٹیک ہولڈرز کا، تاجروں ، سیاستدانوں، جنرلوں، ججوں، صحافیوں، مذہبی رہنماوں اورچپ کرکے بیٹھ رہنے والوں کا بھی کچھ نہیں رہتا۔ پہلے احمدی نشانہ بنے، اب شیعوں اور سنیوں کی باری ہے۔شیعوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔ جبکہ سنیوں کےمزاروں پرحملے کیے جارہے ہیں۔ ان کی بھی ذبح شدہ لاشیں ملنے لگ گئی ہیں۔ جس آگ کو کل تک ہم کسی اور کےگھر میں دیکھ رہے تھے اور اس کی تپش سے محفوظ تھے وہ آج ہماری دیواروں پر سے سر اٹھا کرجھانک رہی ہے۔
بدامنی کا اژدھا کل تک کسی اور کےبچوں کو نگل رہا تھا آج اس کی نظر ہمارے بچوں پر بھی پڑ گئی ہے۔ ایسے میں تاجر، افسر اور جنرل اور سیاستدان کہتے ہیں کہ ہمارے لیے مسائل کھڑے مت کرو۔ تم مسائل کو رو رہے ہیں۔ وہاں تمہیں پھانسیاں لگانے کےلیےیار لوگ پھانسی گھاٹ تیار کررہے ہیں۔ انگلی صرف ہمارے مذہب اور عقیدے پر نہیں اٹھی۔ اب تو تم بھی کافر ہو۔ تم فی الحال تھوڑا انتظار کرو۔ تم ابھی مظلوموں کے دھرنے کو اکھاڑنے کی کوشش کرو۔ ان کو حقارت سے گھورو۔ بس اتنا خیال رہے کہ جب تم اپنےبیٹے یا بیٹی کی لاش لیکر ان کے دھرنوں میں پہنچو تو ان سے آنکھیں ملاسکو۔

No comments:

Post a Comment