Saturday 16 January 2016

کچھ لبرل اور سیکولر کے بارے میں

حفیظ درویش
خدانخواستہ منہ سے اتنا ہی نکل گیا کہ مذہبی انتہا پسندی معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہے تو یار لوگوں نے توپوں کا رخ سیکولر نظریات کی طرف موڑ دینا ہے۔ اور اس کے بعد وہ طوفان بدتمیزی برپا کرنا ہے کہ الامان الحفیظ۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک ڈاکٹر کسی مریض سے کہے کہ تمہاری کمزوری اور جسمانی تکلیف کا باعث فلاں مرض ہے اور مریض بجائے مسئلے کو حل کرنے کے ڈاکٹر پر الزام عائد کردے کہ وہ شدت پسند ہے۔بھئی اگر کسی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے تو اس کا جائزہ لیا جائے نہ کہ بات کرنے والے کی کردارکشی کی جانے لگے یا پھر اس کے نظریات کی تضحیک کی جائے۔کیا کہا کہ آپ کو کسی نظریئے پر تنقید کا حق حاصل ہے؟ تو بھئی اس وقت آپ کیوں شدتِ جذبات سے سرخ پڑجاتے ہیں جب کوئی آپ کے نظریے پر بات کرے؟
ملک میں سوشل میڈیا پر حالیہ روشن خیالی کی تحریک اور سیکولر نظریات کے فروغ سے کچھ اہل دانش شدید قسم کی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔اور اب اٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے جاگتے سیکولرافراد اور سیکولر نظریات کی گوشمالی کررہے ہیں کیونکہ مذہبی شدت پسندوں کے اقدامات اور بیانات کی وکالت کرنے کے لئے ان دانشوروں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے ممدوح افراد کے اقدامات اس قدر غیرانسانی ہیں کہ اس کے دفاع میں بولنا بنیادی انسانی قدروں کی توہین ہے۔ اے پی ایس سکول حملہ ہو، صفورا گوٹھ میں ہونے والا قتل عام ہو، ملتان میں راشد رحمان کا بہیمانہ قتل ہو،قصور میں شمع اور اس کے شوہر کو زندہ جلانے کا واقعہ ہو یا پھر دن دہاڑے شجاع خانزادہ سمیت اٹھارہ لوگوں کی شہادت کا واقعہ ہو، یہ ایسے ظالمانہ اور غیرانسانی اقدامات تھے جن کا دفاع کسی باضمیر پاکستانی کے لئے ممکن نہیں۔
یہ تو رہی ملکی سطح کی صورت حال۔اگر بین الاقوامی سطح پر مذہبی شدت پسندوں کو دیکھا جائے تو ایک عام مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ چاہے نام نہاد داعش کی حکومت اسلامیہ کی قتل و غارت گری ہو۔ یزیدی خواتین کی عصمت دری اور ان کی خریدوفروخت برسرعام سلسلہ ہو۔یا ان کی آزادی کے لئے ہزاروں ڈالرز طلب کرنے کا معاملہ ہو۔ یا پھر نائجیریا میں بوکوحرام کے انتہاپسندوں کی جانب سے سینکڑوں بچیوں کا اغوا اور ان کی فروخت کا سلسلہ ہو۔ ہرجگہ بربریت کا وہ بازار گرم کیا گیا کہ مذہبی سیاست کی شان میں رطب اللسان رہنے والوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ایسے میں سیکولر نظریات کی ضرورت ماضی کی نسبت سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے اور لوگ ایسے کسی حل کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ یہ دہشت و ظلم کا بازار ٹھنڈا پڑے۔
اے پی ایس حملے کے بعد آرمی نے ملک میں موجود شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف دائرہ تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن اب بزور بازو اپنے نظریات کو نافذ کرنے والے اور ان کے ہمدرد اور حامی کافی تذبذب کا شکار ہیں۔ چونکہ عام لوگ یہاں پر فوج کے ساتھ ایک عجیب سے رومانس میں بندھے ہوئے ہیں اس لئے انہوں نے آرمی کے اقدامات کی حمایت کرنا شروع کردی ہے۔ لیکن ایسے میں پوری دنیا پر اپنے جھنڈے لہرانے والوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ یہ گدھے سے گرے ہیں اور کمہار پر برس رہے ہیں۔
اب کوئی بھی سیکولر فرد یہ بات کہتا ہے کہ اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچا چاہیے اور ملک سے سارے شدت پسندوں کا خاتمہ ہوناچاہیے تو فقط مخالفت برائے مخالفت کے چکر میں لوگ سیکولرزکو سینگوں پر رکھ لیتے ہیں۔اور اس سب کے پیچھے ایک بڑا واضح ڈر ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا اور ان کا یہ ڈر بے بنیاد بھی نہیں۔ طالبان، حمید گل کے نظریات کے حامل لوگ، اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کے کالموں کو پڑھ کر غزوہ ہند کی تیاری کرنیوالے مجاہدین جب مذہبی سیاست کے بیانیے کو تہس نہس ہوتا دیکھتے ہیں تو پھر وہ سوچتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوگا اور کون سا نظام یہاں لایا جائے گا۔ اس کے بعد جب وہ چشم تصور سے جمہوری نظام کے آخری پھل یعنی سیکولر جمہوریت کو دیکھتے ہیں تو ان کی دن رات کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ جس کے بعد یہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ بس سیکولر اور لبرل افراد پر چاند ماری کرنے لگتے ہیں۔
ان کی بات کا سْر کچھ یوں بلند ہوتا ہے۔لبرل جھوٹے اور شدت پسند ہیں۔ یہ اس ملک میں بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ بھی طالبان اور دیگر مذہبی شدت پسندوں کی طرح ہیں۔ اگر وہ ایک انتہاپر ہیں تو یہ دوسری پر ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے سارے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کونسے لبرل نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے خودکش جیکٹ باندھی ہے؟ کس نے ہتھیار اٹھائے ہیں یا پھر ہتھیار اٹھانے کی بات کی ہے؟ کس نے کہا کہ بزور بازو سیکولر نظریات کو اس ملک میں لایاجائے؟ بھائی ہم تو کہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ ہے۔ جائیں وہاں اور جو بھی نافذ کرنا ہے اکثریت کی بنیاد پر کرڈالیں۔لیکن چونکہ پارلیمنٹ سے ہمیشہ مذہبی شدت پسندوں کو منہ کی کھانے پڑی اس لئے یہ لوگ نہ صرف جمہوریت بلکہ اس سے وابستہ ہرقسم کے خیر کے دشمن ہوگئے ہیں اور آئے دن عدالت، پارلیمنٹ اور مقننہ کو غیر شرعی قرار دیتے رہتے ہیں۔
انصار عباسی صاحب کھلم کھلا فرماتے ہیں کہ سیکولر اور لبرل اس ملک میں خرابی کی جڑ ہیں۔لیکن دوسری طرف حمید گل اور ملا عمر جیسے لوگ ان کے ہیرو ہیں۔ یہ ان کی پرتشدد اور انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی کے پیروکار ہیں۔ جناب اوریا مقبول جان نے اپنے ایک حالیہ کالم میں موم بتیاں روشن کرنے والے لبرل کو آڑے ہاتھوں لیا اور شمعیں جلانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کو یہودیوں کی رسم قرار دیا۔ چونکہ یہودیوں سے نفرت کرنا یہاں کے لوگوں کے مزاج کا حصہ بنادیا گیا۔ اس لئے جب ہمیں کسی نئی رسم سے نفرت دلانی ہوتو اسے یہودیوں کی رسم کا نام دے دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے کراہت پیدا ہو۔
اس ملک میں گورنر سلمان تاثیر کو گولیوں سے چھلنی کردینے والا ہیرو ہے اور اس کی رہائی کے لئے آئے دن جلوس نکلتے ہیں۔ لیکن اس کی جائے شہادت پر جاکر کوئی دو شمعیں جلا دے تو وہ توہین مذہب کے مجرم ہیں اور کافر ہیں۔ لیکن جناب اوریا سے ہم دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حضور قصور کے ایک گاؤں کے بھٹے پر مزدوری کرنے والی شمع اور اس کے خاوند کو جلانا شدت پسندی ہے نہ کہ کوہسار مارکیٹ میں جاکر کسی کی یاد میں دو شمعیں جلادینا شدت پسندی ہے۔ طالبان کے خلاف سول سوسائٹی ظالمان ظالمان کے نعرے لگا دے تو اسی سول سوسائٹی کو ایول سوسائٹی کہا جانے لگ جاتاہے۔ ایول طالبان کی حمایت کوئی شدت پسندی نہیں لیکن ان کے خلاف ایک نعرہ لگ جائے تو شدت پسندی کا لیبل پکا۔ بندوق لے کر نکل پڑو، یا پھر زبانی کلامی اس ملک میں شدت پسندی کا پرچار کرو تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ لیکن اگر کوئی پیار کی بات کرے یا ویلنٹائن ڈے منانے کی بات کرے تووہ بندہ شدت پسند، مادر پدر آزاد، مغرب کا ایجنٹ اور اسلام کے شعائر کا مذاق اڑانے والا بن جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment